Al-Qurtubi - An-Nisaa : 105
وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ
وَشَجَرَةً : اور درخت تَخْرُجُ : نکلتا ہے مِنْ : سے طُوْرِ سَيْنَآءَ : طور سینا تَنْۢبُتُ : گتا ہے بِالدُّهْنِ : تیل کے ساتھ لیے وَصِبْغٍ : اور سالن لِّلْاٰكِلِيْنَ : کھانے والوں کے لیے
اور وہ درخت بھی (ہم ہی نے پیدا کیا) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے (یعنی زیتون کا درخت کہ) کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن لئے ہوئے اگتا ہے
آیت نمبر 20 ۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و شجرۃ اس کا عطف جنات پر ہے۔ فراء نے اس پر رفع بھی جائز قرار دیا کیونکہ فعل ظاہر نہیں اس کا معنی ہوگا وثم شجرۃ اس سے مراد زیتون کا درخت ہے۔ اس کو علیحدہ ذکر فرمایا کیونکہ اس کے منافع شام، حجاز اور دوسرے شہروں میں بہت زیادہ ہے۔ اور اس کو پانی بھی زیادہ نہیں د ینا پڑتا اور اس کی گوڈی وغیرہ بھی کم ہوتی ہے جبکہ دوسرے درختوں کی دیکھ بھال زیادہ ہوتی ہے۔ تخرج یہ صفت ہے۔ من طور سیناء اللہ نے زیتون کے درخت کو طور سیناپہاڑ سے نکالا ہے جس میں اللہ نے برکت کر کھی ہے۔ طور سیناء شام کی زمین سے ہے۔ یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ نے حضرت موسیٰ سے کلام کی تھی۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کا قول ہے۔ سورة بقرہ اور سورة اعراف میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ طور کلام عرب میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ بعض نے کہا : یہ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ عربی بنایا گیا ہے۔ ابن زید نے کہا : یہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے۔ یہ مصر سے ایلتہ تک پھیلاہوا ہے۔ سیناء کے بارے میں اختلاف ہے۔ قتادہ نے کہا۔ اس کا معنی ہے خوبصورت۔ اس تاویل پر طور کی نعت کی حیثیت سے منون ہوگا۔ مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے مبارک۔ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 139) معمر نے ایک جماعت سے روایت کیا ہے کہ اس کا معنی ہے شجرۃ (درخت) ۔ ان کو طور کو تنوین دینا لازم آتا ہے۔ جمہور نے کہا : یہ پہاڑ کا نام ہے جیسے تو کہتا ہے، جبل احد۔ مجاہد سے بھی یہی مروی ہے۔ سیناء ایک پتھر ہے پہاڑ کو اس طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ وہ اس کے پاس موجود ہے۔ مقاتل نے کہا : ہر پہاڑ جو پھلوں کو اٹھاتا ہے وہ سیناء یعنی خوبصورت ہے۔ کو فیوں نے فعلاء کے وزن پر سین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور فعلاء کلام عرب میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ معرفہ اور نکرہ دونوں صورتوں میں غیر منصرف ہوتا ہے کیونکہ اس کے آخر میں الف تانیث ہے اور الف تانیث جس میں ہوتی ہے اسکو لازم ہوتی ہے۔ عرب کلام میں فعلاء نہیں ہے۔ لیکن جنہوں نے سیناء سین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اس کا وزن فعلالا بنایا ہے۔ اس میں ہمزہ، حرباء کے ہمزہ کی طرح ہے۔ اس آیت میں غیر منصرف نہیں کیونکہ یہ بقعہ کا اسم ہے۔ اخفش کا خیال ہے کہ یہ اسم عجمی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ تنبت بالدھن جمہور نے تنبت تاء کے فتحہ اور باء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے وہ اگتا ہے اس کے ساتھ تیل ہوتا ہے جیسا تو کہتا ہے : خرج زید بسلاحہ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 140) ۔ ابن کثیر اور ابو عمرو نے تاء کے ضمہ اور باء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس قرأت پر تقدیر میں اختلاف ہے۔ ابو علی فارسی نے کہا اس کی تقدیر یہ ہے۔ تنبت حباھا ومعہ الدھن پس مفعول محذوف ہے۔ بعض نے کہا : باء زائدہ ہے جیسے : ولا تلقو بایدیکم الی التھلکۃ (البقرہ :195) یہ ابو عبیدہ کا مذہب ہے۔ شاعر نے کہا۔ نضرب بالسیف ونرجو بالفرج ایک اور شاعر نے کہا : ھن الحرائر لا ربات احمرۃ سود المحاجر لا یقر ان بالسور اسی طرح ابو علی نے کہا ہے پہلے گزر چکا ہے۔ بعض نے کہا : نبت اور انبت ہم معنی ہیں پس معنی اسی طرح ہوگا جمہوری قرأت میں گزرا ہے، یہی فراء اور ابو اسحاق کا مذہب ہے، اسی سے زہیر کا قول ہے۔ حتی اذا انبت البقل اصمعی، انبت کا انکار کرتا ہے۔ اور زہیر کے اس قصیدہ پر تہمت لگاتا ہے جس میں ہے۔ رایت ذوی الحاجات حول بیوتھم قطینا بھاحتی اذا انبت البقل یعنی نبت زہری، حسن اور اعرج نے تبنت بالدھن تاء کے رفع اور باء کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن جنی اور زجاج نے کہا : یہ باء حال کی ہے یعنی تنبت ومعھا دھنھا اور حضرت ابن مسعود کی قرأت میں تخرج بالدھن (ایضا) یہ باحال کے لئے ہے۔ ابن دستویہ نے کہا : الدھن سے مراد نرم پانی ہے۔ تنبت، الانبات سے ہے۔ ذربن حبیش نے تنبت تاء کے ضمہ اور باء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ آیت سے مراد زیتون کی نعمت کو انسان پر شمار کرنا ہے۔ یہ ان نعمتوں کے ارکان سے ہے۔ جن سے استغناء نہیں۔ زیتون کے معنی میں سارے زیتون کے درخت ہیں۔ مختلف علاقوں سے مختلف اقسام پر جو ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : و صبغ للا کلین۔ یہ جمہور کی قرأت ہے۔ ایک جماعت نے اصباغ جمع کا صیغہ پڑھا ہے۔ عامر بن عبد قیس نے ومتاعا پڑھا ہے۔ اور اس سے مراد زیت ہے جس کے ساتھ کھانا بنایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے۔ صبغ وصباغ جیسے دبغ ودباغ، لبس و لباس ہر سالن جس کے ساتھ کھانا کھایا جاتا ہے وہ صبغ ہے۔ ہر وی وغیرہ نے اس کو حکایت کیا ہے۔ الصبغ کا اصل معنی وہ چیز ہے جس کے ساتھ کپڑے کو رنگا جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ سالن کو تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ روٹی سالن کیساتھ رنگی جاتی ہے جب روٹی کو سالن میں ڈبویا جاتا ہے۔ مقاتل نے کہا : الادم سے مراد الزیتون اور الدھن سے مرادتیل ہے۔ اللہ نے اس درخت میں سالن اور تیل پیدا فرمایا ہے۔ اس بناء پر الصبغ سے مراد زیتون ہوگا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ تمام مائعات جن کے ساتھ کھانا کھایا جاتا ہے جیسے زیتون کا تیل، گھی، شہد اور شیرہ، سرکہ وغیرہ جو بھی شوربے والی چیزیں ہوتی ہیں وہ سالن ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے نص قائم فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب الاطعمتہ، ماجاء فی الخل، جلد 2، صفحہ 6) ۔ نعم الادام الخل بہترین سالن سرکہ ہے۔ اسکو نو صحابہ نے روایت کیا ہے۔ سات مرد اور دو عورتیں ہیں۔ صحیح میں جنہوں نے اس کو روایت کیا ہے وہ یہ ہیں۔ حضرت جابر، حضرت عائشہ، حضرت خارجہ، حضرت عمر، ان کا بیٹا حضرت عبید اللہ، حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت انس اور حضرت ام ہانی ؓ مسئلہ نمبر 5 ۔ اس میں اختلاف ہے جو چیزیں جامد ہوتی ہیں مثلا گوشت، کھجور اور زیتون وغیرہ۔ جمہور علماء کہتے ہیں : یہ سب سالن ہیں پس جس نے قسم اٹھائی کہ وہ سالن نہیں کھائے گا پھر اس نے گوشت یا پنیر کھایا تو وہ حانث ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : وہ حانث نہیں ہوگا۔ صاحبین نے اس مسئلہ میں امام صاحب کی مخالفت کی ہے۔ امام ابو یوسف سے امام ابوحنیفہ کے قول کی مثل بھی مروی ہے۔ اور البقل (سبزیاں) تمام کے نزدیک سالن نہیں ہیں۔ امام شافعی سے کھجور کے متعلق دو قول مروی ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ یہ سالن نہیں کیونکہ ان کا قول التنبیہ میں ہے۔ بعض نے کہا : حانث ہوجائے گا۔ صحیح یہ ہے کہ یہ تمام سالن ہیں۔ ابو دائود نے حضرت یوسف بن عبد اللہ بن سلام سے روایت کیا ہے۔ (سنن ابی دائود، کتاب الایمان، جلد 2 صفحہ 108 ۔ ایضا حدیث 2837 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے ایک ٹکڑا جو کی روٹی کا لیا اور اس پر کھجور رکھی اور فرمایا : یہ اس کا سالن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : د نیا وآخرت کا سالن کا سردار گوشت ہے۔ اس حدیث کو ابو عمرو نے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری نے باب الادام کے نام سے عنوان باندھا ہے اور اس میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ذکر کی ہے۔ الادام، الموادمۃ سے ماخوذ ہے۔ اس کا معنی سے موافقت کرنا یہ اشیاء روٹی کے موافق ہے۔ پس یہ ادام ہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ سالن سے روٹی کھائو اگرچہ پانی کے ساتھ ہو۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ ادام کی حقیقت اجتماع میں اس طرح موافقت ہے کہ فصل کو قبول نہ کرتا ہو جیسے سرکہ، زیتون کا تیل وغیرہ، رہے گوشت اور انڈے وغیرہ یہ روٹی سے موافقت نہیں رکھتے بلکہ یہ اس کے مجاور ہوتے ہیں جیسے تربوز، کھجور اور انگور ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو کھانے میں روٹی کی موافقت کی محتاج ہے وہ ادام ہے، جو اس کی محتاج نہیں بلکہ علیحدہ دکھائی جاتی ہے تو وہ سالن ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ امام ترمذی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : زیتون کا تیل کھائو اور اس کا تیل لگائو کیونکہ یہ مبارک درخت ہے۔ (جامع ترمذی، ابواب الاطعمتہ، ماجاء فی اکل الزیت، جلد 2، صفحہ 7 ۔ ایضا، حدیث نمبر 1774) ۔ یہ حدیث معروف نہیں مگر عبد الرزاق کی حدیث سے۔ وہ اس میں مضطرب ہے کبھی اس میں وہ عن عمر عن النبی ﷺ ذکر کرتا ہے۔ اور کبھی شک کی بناء پر روایت کرتا ہے اس نے کہا : احسبہ عن عمر عن النبی ﷺ اور کبھی کہا : عن زید بن اسلم عن ابیہ عن النبی ﷺ مقاتل نے کہا : ا لطور کو زیتون کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ کیونکہ زیتون سب سے پہلے اس سے پیدا ہوا۔ بعض نے کہا : زیتون پہلا درخت ہے جو دنیا میں طوفان کے بعد پیدا ہوا۔
Top