Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 91
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : حالتِ کفر فَلَنْ يُّقْبَلَ : تو ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْ : سے اَحَدِ : کوئی ھِمْ : ان مِّلْءُ : بھرا ہوا الْاَرْضِ : زمین ذَھَبًا : سونا وَّلَوِ : اگرچہ افْتَدٰى : بدلہ دے بِهٖ : اس کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک وَّمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مرگئے وہ اگر (نجات) حاصل کرنی چاہیں (اور) بدلے میں زمین بھر کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا
آیت نمبر : 91۔ المل، کسرہ کیساتھ ہو تو مراد وہ مقدار ہے جو کسی شے کو بھر دیتی ہے اور المل فتحہ کے ساتھ مصدر ہے تیرا کسی شے کو بھر دینا اور کہا جاتا ہے : اعطنی ملاہ وملایہ وثلاثۃ املایہ۔ اور (آیت) ” ولو افتدی بہ “ میں واؤ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مقحم اور زائدہ ہے، اور معنی یہ ہے (آیت) ” فلن یقبل من احدھم ملء الارض ذھبا ولو افتدی بہ “۔ اور علماء نحو میں سے اہل نظر نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ واؤ مقحمہ ہو کیونکہ یہ معنی پر دلالت کر رہی ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے : سو ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا تبرعا قبول نہیں کیا جائے گا اگر وہ اسے بطور فدیہ دے۔ اور (آیت) ” ذھبا “ ، فراء کے قول کے مطابق بطور تفسیر منصوب ہے، مفضل نے کہا ہے : تفسیر کے لئے شرط یہ ہے کہ کلام تام ہو اور وہ مبہم ہو، جیسے تیرا یہ قول ہے : عندی عشرون، اس میں عدد معلوم ہے اور معدود مبہم ہے، پس جب تو نے درھما کہا تو تو نے تفسیر بیان کردی، بلاشبہ اسے بطور تمیز نصب دی گئی ہے کیونکہ اس کے لئے کوئی ایسا عامل نہیں ہے جو اسے کسرہ دے رہا ہو اور نہ ہی اسے کوئی رفع دینے والا عامل ہے، اور نصب خفیف ترین حرکت ہے اور یہ ہر اس کے لئے بنائی گئی ہے جس میں کوئی عامل نہ ہو، اور کسائی نے کہا ہے : اسے من کو مضمر کر کے نصب دی گئی ہے۔ یعنی اصل میں تھا من ذھب، جیسا کہ اس قول میں ہے : اوعدل ذالک صیاما۔ ای من صیام۔ اور بخاری اور مسلم میں حضرت قتادہ ؓ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن کافر کو لایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا : تیرا کیا خیال ہے اگر تیرے لئے زمین بھر سونا ہو، کیا تو اسے بطور فدیہ دے سکتا ہے ؟ تو وہ کہے گا، ہاں، پھر اسے کہا جائے گا : تحقیق تجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کیا تھا جو اس سے بہت زیادہ آسان تھی۔ “ یہ بخاری کے الفاظ ہیں، اور مسلم نے قد کنت کی بجائے کذبت، قد سئلت کے الفاظ نقل کئے ہیں، (تو نے جھوٹ بولا ہے حالانکہ تجھ سے اس کا سوال کیا گیا تھا) (1) (صحیح بکاری، باب من نوقش الحساب، حدیث نمبر 6057 ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
Top