Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 91
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : حالتِ کفر فَلَنْ يُّقْبَلَ : تو ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْ : سے اَحَدِ : کوئی ھِمْ : ان مِّلْءُ : بھرا ہوا الْاَرْضِ : زمین ذَھَبًا : سونا وَّلَوِ : اگرچہ افْتَدٰى : بدلہ دے بِهٖ : اس کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک وَّمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہے تو ان میں سے اگر کوئی شخص پورے کرہ ارض کو سونے سے بھر کر دے دے جب بھی اس کے فدیہ میں قبول نہ ہوگا یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے عذاب دردناک ہے اور کوئی شخص بھی ان کا مددگار نہیں ہو گا
کفر پر قائم رہنے والے جب دارالعمل سے نکل گئے تو اب ان کے ایمان کی کوئی صورت باقی نہ رہی : 177: ” جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہے۔ “ ان کی حالت کا بیان ہورہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء۔ دارالعمل یعنی دنیا میں جو کچھ انسان کرے گا آخرت میں اسکا بدلہ پائے گا۔ دارالاخرة، دارالعمل نہیں اس لیے اس میں پہنچ کر کوئی ہزار حیلے کرنے کہ اب اس کے لیے کوئی عمل کی صورت نکل آئے اور اب وہ اچھے اعمال کرے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ اس احکم الحاکمین کا فیصلہ ہے جو نہ اپنے فیصلہ کو بدلتا ہے اور نہ ہی بدلنے دیتا ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ فرض کرو کہ ایسے لوگوں کے لیے زمین و آسمان کے خلا کے برابر بھی سونا ہو اور وہ اس وقت فدیہ میں دے کر عذاب سے نجات چاہیں تو ان کو نجات نہیں ملے گی اس لیے کہ وہ مقام مقام جزاء ہے مقام عمل نہیں اور یہ سونا اس وقت پیش کرنا اس کا ایک عمل ہوا اور اب اس کے عمل کا وقت نہیں بلکہ عمل کا وقت دنیا تھی اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ذرا غور کرو بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی بچہ پیدا ہوتا ہے اور آهستہ آهستہ وہ بڑھتا جاتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ اس کے مکتب میں داخل ہونے کا وقت آجاتا ہے لیکن اسے مکتب میں داخل نہیں کیا گیا وہ سن بلوغ کو پہنچتا ہے تو اس کو کچھ پچھتاوا نہیں ہوتا تاکہ اب ہی اس کا کچھ مداواہو جائے۔ اب جو ان ہوجاتا ہے شادی ہوتی ہے محنت مزدوری کر کے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے پھر آهستہ آهستہ بوڑھا ہوجاتا ہے کہ اب مزدوری کے قابل بھی نہیں رہتا اور اب اس کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ کاش وہ بچہ بن جائے اور اب مکتب میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کرے ، جوان ہو کر اور تعلیم سے فارغ ہو کر فلاں مقام پر حج لگ جائے۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا اس کی سوچ صحیح ہے ؟ اس کے لیے جو کچھ بھی وہ خرچ کرسکتا ہے کر دے کامیاب ہوجائے گا ؟ ہرگز ہرگز نہیں معلوم ہوگیا کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا یہی بات اس آیت زیر نظر میں سمجھائی جارہی ہے کہ اے انسان جب وقت نکل جائے تو وہ دوبارہ لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ لیکن افسوس کہ آج جس قوم کو یہ درس دیا گیا تھا اس نے اس اصول سے مکمل طور پر انحراف کردیا اور اس نے وقت کی کوئی قدر نہ کی اور راہنمایاں قوم نے قوم کو ایسے راستہ پر ڈال دیا کہ انہوں نے اس تیزی سے گزرنے والے وقت کے متعلق کبھی سوچا تک بھی نہیں بلکہ انہوں نے ایسے طریقے اختیار کیے کہ قوم کی سوچ کبھی اس طرف منتقل ہی نہ ہو۔ یہی نہیں بلکہ قوم کو ایسی گہری نیند سلادیا گیا کہ وہ کبھی جاگ ہی نہ سکے اگر کسی کی آنکھ کھل گئی تو اس کو ایسی تھپکیاں دیں کہ وہ پھر سو گیا اگر کسی کی آنکھ پھر بھی کھلی دیکھی تو اس کو ایسی گولی کھلا دی کہ اس کی ہوش گم ہوگئی۔ راہنمایانِ وقم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لیے کہ انگریز سرکار اور امریکہ بہادر نے ان کے بھتے کردیے اور ان کے کان میں پھونک دیا کہ تمہاری قوم سوئی رہی تو مرے میں رہو گے اگر یہ جاگ گئی تو تمہاری خیر نہیں اس لیے کہ اس قوم کے جاگنے کا وقت انکو اب تک یاد ہے۔ اللہ کرے کہ کوئی ایسا جرنیل اٹھے جو ان راہنمایانِ قوم پر ہاتھ صاف کرے اور قوم کو جگا کر اس تیزی سے گزرنے والے وقت کا احساس دلا دے۔ مختصر یہ کہ انسان کو بتایا جارہا ہے کہ اے انسان ! جب تک تو دارالعمل میں ہے تیری کوتاہیوں کا مداوا ممکن ہے اور جب تو دارالعمل سے نکل کر دارالجزاء میں داخلل ہوگیا اس وقت تیری کوتاہیوں کا کوئی مداوا ممکن نہیں۔ اس لیے جو کرنا ہے کرلے آخر موت ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمیں مذہبی رہنماؤں نے باور کرا دیا کہ کوتاہیاں کرتے رہو اور کرتے کرتے ہی مرجاؤ مداوا ہم کرالیں گے تم مرکر دیکھو ہم تمہری قبر پر ڈیرہ ڈال دیں گے اور عذاب کے فرشتوں کو ایسی نتھ ڈالیں گے کہ وہ تمہارے قریب نہیں جانے پائیں گے۔ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ گیا ہوا کبھی واپس نہیں آسکتا اس لیے نہ وہ آئے گا نہ کچھ بتائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی دکانداری ایسی چلائی کہ اس دارالعمل میں رہنے والوں کو اپنے اپنے دارالجزاء میں جانے والوں کے لیے کچھ کرنے کی سوچ دے دی کہ ان کے لیے کچھ کرلو تاکہ تمہارے دارالجزاء میں جانے کے بد دارالعمل میں آنے والے تمہارے متعلق کچھ سوچ سکیں۔ اب یہ مذہبی راہنما اتنی ترقی کر گئے اور ان کا کاروبار اتنا چل گیا جس کے بند ہونے کا ان کو کوئی فکر نہیں اس لیے کہ نہ ہلدی لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور الکھوں کماتے ہیں جانے والے جائیں جہنم میں ان کی بلا سے لیکن آخر یہ خود کب تک رہیں گے۔ جس طرح پچھلی قوم میں یہ دکانداریاں ہوتی آئی ہیں اور با بھی دنیا کی ساری قوموں میں ہورہی ہیں اسی طرح قوم مسلم میں بھی چل رہی ہیں اور چلتی رہیں گی تم کو خود سوچنا ہے معاملہ کا حل اسی میں ہے اللہ توفیق دے تو خود سوچو قرآن کریم کو پڑھو اور سمجھو او اس کے مطابق عمل کی کوشش کرو۔ دیکھو قرآن کریم پکار پکار کر کہه رہا ہے کہ ” جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہے اور اب مرنے کے بعد ان کی طرف سے کوئی کرہ ارض بھی سونے سے بھر کر دے کہ اس کا فدیہ دے کر اس کو چھڑا لیاجائے جب بھی اس کا فدیہ قبول نہیں ہوگا۔ اس کے لیے دردناک عذاب ہے اور کوئی شخص بھی ان کا مددگار نہیں ہو سکتا جو ان کو اس عذاب سے نجات دلوا دے۔ “ یہ تیسرے ، چوتھے ، ساتویں ، دسویں ، چالیسوں اور برسیاں تو ہمارے مذہبی راہنماؤں کی دکانداری کا راس المال ہیں دارالجزاء میں جانے والوں کو اس سے کیا حاصل ہوگا ؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور یقیناً نہیں ہوگا۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے دن خفیف ترین عذاب والے دوزخی سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر تیرے پاس روئے زمین کی تمام چیزیں ہوں تو کیا آج عذاب سے چھوٹنے کے لیے تو وہ سب چیزیں دے دے گا وہ دوزخی کے گا جی ہاں ! دے دوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تو آدم کی پشت میں تھا تو اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بہت زیادہ آسان چیز کی خواہش کی تھی کہ پیدا ہونے کے بعد میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا مگر تو بغیر شرک کرنے کے نہ رہا “ اب تو جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا۔ جن کے لیے درد ناک عذاب ہے ان کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا : 178: جو لوگ کفر کی راہ پر گامزن ہوئے اور اس پر گامزن رہے کہ موت نے کام تمام کردیا یقیناً ان کے لیے دردناک عذاب ہے اور اس عذاب سے نکالنے کے لیے کوئی بھی اب ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے اس مضمون کی اس طرح وضاحت فرما دی : ” بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکا پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مر گئے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ “ (محمد 47 : 34 ) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” لیکن ان لوگوں کی توبہ کوئی توبہ نہیں جو ساری عمر تو برائیاں کرتے رہے لیکن ان میں سے جب کسی کے سامنے موت آکھڑی ہوئی تو کہنے لگا اب میں توبہ کرتا ہوں ظاہر ہے کہ ایسی توبہ سچی توبہ نہیں اس طرح ان لوگوں کی توبہ بھی کوئی توبہ نیں جو دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں۔ ان تمام کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ جو انہیں پاداش عمل میں پیش آئے گا۔ “ (النساء 18:4) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کفر کی موت مرنے والے کے لیے کوئی نہیں کہ اس کی شفاعت کر کے اسے بچا لے اور جس قدر بھی بدلے ہوسکتے ہیں اگر وہ سب دے دے تو بھی اس سے وصول نہیں کیے جائیں گے کیونکہ بدعملی کے نتیجہ سے کوئی بھی فدیہ نہیں بچا سکتا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بدعملی کی وجہ سے ہلاکت میں چھوڑ دیے گئے ان کے لیے کھولتا ہوا پاین پنیے کو ہوگا اور دردناک عذاب جو انکار حق کی پاداش میں بھگتنا ہوگا۔ “ (الانعام 70:6) ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : ” اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے ۔ “ جو کی حال میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ (یونس 10 : 54 ) ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” جن لوگوں نے حکم الٰہی قبول نہیں کیا ان کے تمام اعمال رائیگاں جائیں گے وہ نامرداری اور بدحالی سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکتے اگر کرہ ارض کی تمام دولت ان کے اختیار میں آجائے اور پھر اسے دوگنا بھی کردیا جائے تو یہ لوگ اپنے بدلہ میں ضرور اسے بطور فدیہ کے دے دیں لیکن وہ نہیں بچ سکیں گے یہی لوگ ہیں جن کے لیے حساب کی سختی ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ “ (الرعد 13 : 18 ) ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے کہ : ” جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اگر ان کے قبضہ میں وہ تمام مال و متاع آجائے جو روئے زمین میں موجود ہے اور اتنا ہی اور بھی وہ پا لیں پھر یہ سب کچھ روز قیامت عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں دے دیں جب بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا ان کے لیے عذاب درد ناک ہے۔ “ (المائدہ 36:5) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتناہی اور بھی ہو تو یہ لوگ قیامت کے روز بڑے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ آئے گا جس کا وہ وہم و گمان بھی نہ رکھتے تھے۔ “ (الزمر 39 : 47 ) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” لہٰذا آج کے دن نہ تو کوئی فدیہ تم سے قبول کیا جائے گا اور نہ ہی ان لوگوں سے جو کھلے کافر تھے اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہے وہی تمہارے لوٹنے کا مقام ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ “ (الزمر 39 : 57) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” لہٰذا آج کے دن نہ تو کوئی فدیہ تم سے قبول کیا جائے گا اور نہ ہی ان لوگوں سے جو کھلے کافر تھے اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہے وہی تمہارے لوٹنے کا مقام ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ “ (الحدید 57 : 15) مزید تفصیل کے لیے دیکھو عروة الوثقیٰ جلد الو سورة بقرہ آیت : 162
Top