بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اس نے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلا دیئے اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت ہی مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ آیت نمبر 1۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم “۔ سورة بقرہ میں الناس کا اشتقاق، التقوی، الرب، الخلق، الزوج اور البث کا معنی گزر چکا ہے، اس لئے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، اس آیت میں صانع (بنانے والا) پر تنبیہ اور آگاہی ہے فرمایا (آیت) ” واحدۃ “ نفس کے لفظ کی تانیث کی بناء پر (آیت) ” واحدۃ “۔ فرمایا۔ نفس کا لفظ مؤنث ہے اگرچہ اس سے مراد مذکر ہوتا ہے، کلام عرب میں من نفس واحد بھی جائز ہے، یہ معنی کی رعایت کے اعتبار سے ہے، کیونکہ نفس سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں، یہ مجاہد (رح) اور قتادہ (رح) کا قول ہے اور یہ ابن ابی عبلہ کی قرأت میں بغیر (تا) کے واحد ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 3 دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” اسکا معنی زمین میں بکھیر دینا اور پھیلا دینا ہے اسی سے ہے۔ (آیت) ” وزاربی مبثوثۃ۔ (آیت) ” وبث کی تشریح سورة بقرہ میں گزر چکی ہے، (آیت) ” منھما “۔ یعنی حضرت آدم اور حوا علیہما السلام، مجاہد نے کہا : حضرت حواء حضرت آدم (علیہ السلام) کی چھوٹی پسلی سے پیدا کی گئی تھی، حدیث میں ہے : ” عورت ٹیڑھی پسلی سے پید کی گئی ہے “ (2) (تاریخ بغداد وذکر النساء من اھل بغداد جلد، 14، صفحہ 431، مکتبہ العربیہ بغداد عراق) سورة بقرہ میں تفصیل گزر چکی ہے، (آیت) ” رجالا کثیرا ونسآء “۔ حضرت آدم وحوا (علیہما السلام) کی اولاد کو دو قسموں میں محصور فرمایا۔ یہ اس کی مقتضی ہے کہ خنثی (ہیجڑا) کوئی نوع نہیں ہے لیکن اس کی حقیقت ہے جو اسے ان دو قسموں کی طرف لوٹا دیتی ہے اور وہ حقیقت اس کا یہ آدمی ہونا ہے پس یہ ان دواسموں میں سے ایک کے ساتھ لاحق ہوگا جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے اعضاء کی کمی اور زیادتی کے اعتبار سے کسی ایک قسم سے ملحق ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتقوا اللہ الذی تسآء لون بہ والارحام۔ (آیت) ” اتقوا “ کو دوبارہ ذکر فرمایا تاکہ جس کو حکم دیا جا رہا ہے ان کے نفوس کے لئے تاکید ہوجائے، الذین نعت ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے، (آیت) ” الارحام “ معطوف ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرو اور رحموں کے قطع کرنے سے ڈرو (یعنی رشتہ داروں سے قطع تعلقی سے ڈرو) اہل مدینہ نے تا اور سین کے ادغام کے ساتھ تساء لون پڑھا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 4 دارالکتب العلمیہ) اور اہل کوفہ نے دو تاء کے اجتماع کی وجہ سے ایک تاء کے حذف کے ساتھ اور سین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ معنی معروف ہے یہ اس قول کی طرح ہے (آیت) ” ولا تعاونوا علی الاثم “۔ (مائدہ : 2) (نہ معاونت کرو گناہ پر) اور تنزل اور اس کے مشابہ الفاظ جس میں تا حذف ہوتی ہے۔ ابراہیم نخعی، قتادہ، اعمش اور حمزہ نے (آیت) ” کو جر کے ساتھ پڑھا ہے۔ (4) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 4، دارالکتب العلمیہ بیروت) نحویوں نے اس کے متعلق گفتگو کی ہے۔ رہے بصری نحوی علماء تو ان کے روساء علماء نے کہا : یہ غلطی ہے اس کے ساتھ قرات حلال نہیں اور رہے کوفی نحوی علماء انہوں نے فرمایا : یہ قبیح ہے اور انہوں نے اس پر مزید کچھ نہ کہا اور انہوں نے اس کے قبح کی علت ذکر نہیں کی، نحاس نے کہا : یہ میری معلومات کے مطابق ہے اور سیبویہ نے کہا : مضمر مجرور پر عطف نہیں ہوتا کیونکہ وہ تنوین کے قائم مقام ہوتا ہے اور تنوین پر عطف نہیں کیا جاتا، ایک جماعت نے کہا : یہ ضمیر پر معطوف ہے کیونکہ وہ اس کے ذریعے بھی سوال کرتے تھے، کوئی کہتا : میں تجھ سے اللہ تعالیٰ اور رحم کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں، حضرت حسن، نخعی اور مجاہد نے اسی طرح کی تفسیر کی ہے (5) (جامع البیان، جلد 3۔ 4، صفحہ 280، داراحیاء التراث العربیہ) اور مسئلہ میں صحیح یہی ہے جیسا کہ آگے آئے گا، بعض علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ان میں سے زجاج بھی ہے، اسم ظاہر کا اسم ضمیر مجرور پر عطف قبیح ہوتا ہے مگر حرف جر کے اظہار کے ساتھ جائز ہوتا ہے۔ مثلا (آیت) ” فخسفنا بہ وبدارہ الارض “۔ (القصص : 81) لیکن مررت بہ وزید میں قبیح ہے، زجاج نے مازنی سے روایت کیا ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ دونوں شریک ہیں ہر ایک دوسرے کی جگہ آتا ہے یعنی جس طرح مررت بزیدوک جائز نہیں ہے اسی طرح مررت بک وزید بھی جائز نہیں رہا سیبویہ یہ اس کے نزدیک قبیح ہے اور یہ جائز نہیں ہے مگر شعر میں جائز ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : فالیوم قربت تھجونا وتشتمنا فاذھب فما بک والایام من عجب : اس شعر میں ایام کا عطف ک پر ہے اور بغیر باء کے ہے اور یہ ضرورت شعر کے لئے ہے اسی طرح ایک شاعر نے کہا : تعلق فی مثل السواری سیوفنا وبینھا والکعب مھوی نفانف : اس شعر میں الکعب کا عطف ھا ضمیر پر ہے اور ضرورۃ ہے ابو علی نے کہا : یہ قیاس میں ضعیف ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 4 دارالکتب العلمیہ) کتاب التذکرۃ المھدیہ میں فارسی سے مروی ہے کہ ابو العباس المبرد نے کہا : اگر میں کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھوں : جو ” ماانتم بمصرخی (ابراہیم : 22) اور ” اتقوا اللہ الذی تساء لون بہ والارحام “۔ پر ہے تو میں اپنے جوتے اٹھا کر چلا جاؤں گا، زجاج نے حمزہ کی قرات اپنے ضعف اور عربی میں قبح کی وجہ امر دین کے اصول میں عظیم خطا ہے۔ (2) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 4) کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لا تحلفوا بابائکم “۔ (3) (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، جلد 2، صفحہ 983) اپنے آباء کی قسمیں نہ اٹھاؤ جب اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی کی قسم اٹھانا جائز نہیں تو رحم کی قسم اٹھانا کیسے جائز ہے، میں نے اسماعیل بن اسحاق کو دیکھا وہ غیر اللہ کی قسم کو ایک عظیم امر سمجھتے تھے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، نحاس نے کہا : بعض کا قول ” والارحام “۔ قسم ہے یہ اعراب اور معنی کے اعتبار سے خطا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث مروی ہے۔ جو (آیت) ” الارحام “ کی نصب پر دلالت کرتی ہے شعبہ نے عون بن ابی جحیفہ سے انہوں نے منذر بن جریر سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے حتی کہ ایک قوم مضر آئی برہنہ پا اور برہنہ جسم تھی میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ ان کے فاقہ کی کیفیت دیکھ کر آپ کا رنگ بدل گیا، پھر آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی اور لوگوں کو خطاب فرمایا اور یہ آیت ” یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونسآء واتقواللہ الذی تسآء لون بہ والارحام “۔ تک تلاوت فرمائی پھر فرمایا : کسی نے دینار صدقہ کیا، کسی نے درہم صدقہ کیا، کسی نے کھجور کا صاع (چار کلو) صدقہ کیا (4) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ جلد 1، صفحہ 327) آگے مکمل حدیث ذکر کی۔ یہ معنی نصب کے اعتبار سے ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے پر برانگیختہ کیا اور نبی کریم ﷺ سے صحت کے ساتھ مروی ہے کہ یہ قسم اٹھائے وہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے (5) (صحیح بخاری، کتاب الشہادت، جلد 2، صفحہ 368) یہ حدیث اس شخص کے قول کا رد کرتی ہے جو کہتا ہے : اس کا معنی ہے اسالک باللہ وبالرحم۔ “ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ اور رحم کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں ابو اسحاق نے کہا (آیت) ” تساء لون بہ “ کا معنی ہے تم اپنے حقوق ان کے واسطہ سے طلب کرتے ہو، اس کے ساتھ جر کا کوئی معنی نہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ ہے وہ جس پر میں آگاہ ہوا ہوں کہ علماء نے (آیت) ” الارحام “ کی قرات جر کے ساتھ منع کی ہے، ابن عطیہ نے اس کو اختیار کیا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 5 دارالکتب العلمیہ) امام ابو نصر عبدالرحیم بن عبد الکریم قشیری نے اس کا رد کیا ہے اور عطف کا اختیار کیا ہے اور فرمایا ائمہ دین کے نزدیک اس کلام کی مثل مردود ہے کیونکہ وہ قراتیں جو قراء ائمہ نے پڑھی ہیں وہ نبی کریم ﷺ نے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، اہل صنعت اس کو جانتے ہیں جب کوئی چیز نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو پس جس نے اس کو رد کیا تو اس نے نبی کریم ﷺ پر رد کیا اور اس نے آپ کی قرات کو اچھا نہ سمجھا اور یہ مقام محذور ہے (یعنی ایسی بات سے بچا جاتا ہے) اس میں ائمہ لغت اور ائمہ نحو کی تقلید نہیں کی جائے گی، کیونکہ عربی زبان میں نبی کریم ﷺ سے حاصل کی گئی ہے اور کوئی شخص آپ کی فصاحت میں شک نہیں کرتا اور رہی حدیث جو ذکر کی گئی ہے اس میں نظر ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ابو العشراء کو فرمایا : وابیک لوطعنت فی خاصرتہ (2) (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الصید والذبائح، جلد 9، صفحہ 246، درا الفکر) تیرے باب کی قسم اگر تو اسے پہلو میں نیزہ مارتا، پھر نہی تو غیر اللہ کی قسم کے بارے میں ہے اور یہ رحم کے حق کے ساتھ غیر کی طرف توسل ہے، اس میں نہی نہیں ہے قشیری نے کہا : بعض علماء نے فرمایا : یہ الرحم کے ساتھ قسم اٹھانا ہے یعنی اتقوا اللہ وحق الرحم “ جیسے تو کہتا ہے افعل کذا وحق ابیک “۔ میں ایسا کروں گا تیرے باپ کے حق کی قسم، قرآن میں ہے (آیت) ” والنجم، والطور، والتین، لعمرک “ اور یہ تکلیف ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں کوئی تکلف نہیں، کیونکہ کوئی بعید نہیں کہ (آیت) ” والارحام “ اس قبیل سے ہو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ قسم اٹھائی ہو جیسے اس نے اپنی ان مخلوقات کے ساتھ قسم اٹھائی ہے جو اس کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرتی ہے اس کی تاکید کے لئے حتی کہ کہ اپنی ذات کے ساتھ انہیں ملایا اور اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے قسم اٹھائے اور جو چاہے منع کرے اور جو چاہے مباح کرے اور کوئی بعید نہیں کہ یہ قسم ہو اور عرب الرحم کی قسم اٹھاتے بھی ہیں اور باکامراد ہونا بھی صحیح ہے پھر اس کو حذف کیا گیا ہو جس طرح اس شعر میں حذف کیا گیا ہے۔ مشائیم لیسوا مصلحین عشریۃ ولا ناعب الیبین غرابھا : اس شعر میں ناعب کو جر دی گئی ہے اگرچہ با پہلے نہیں ہے، ابن الدہان ابو محمد سعید بن مبارک نے کہا : کوفی اسم ظاہر کا اسم مجرور پر عطف جائز قرار دیتا ہے، اس سے وہ منع نہیں کرتا اسی سے یہ قول ہے : ابک ایۃ بی او مصدر من حمر الجلۃ جاب حشور : اسی طرح یہ ہے : فاذھب فما بک والایام من عجب، ایک اور کا قول ہے : وما بینھا والکعب غوط نفانف : ایک اور مصرعہ ہے، فحسبک والضحاک سیف مھند : ایک اور کا قول ہے : قد رام افاق السماء فلم یجد لہ مصعدا فیھا ولا الارض مقعد : ایک اور قول ہے : ما ان بھا والامور من تلف، ماحۃ من امر غیبہ وقعھا : ایک اور کا قول ہے : امر علی الکتیبۃ لست ادری احتفی کان فیھا ام سواھا : اسی شعر میں فسواھا فی حرج جر کی وجہ سے محل جر میں ہے۔ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (آیت) ” وجعلنا لکم فیھا معایش ومن لستم لہ برزقین “۔ (الحجر) کو اس پر محمول کیا ہے یعنی کاف اور میم پر عطف ہے، عبداللہ بن یزید نے (آیت) ” والارحام “۔ کو مبتدا کی حیثیت سے مرفوع پڑھا ہے اور اس کی خبر مقدر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہوگی والا رحام اھل ان توصل (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 3 دارالکتب العلمیہ) اور اس میں اغراء کا بھی احتمال ہے کیونکہ عربوں میں کچھ المغری کو مرفوع پڑھتے ہیں۔ الفراء نے یہ دلیل دی ہے۔ ان قوما منھم عمیر واشباہ عمیر ومنھم السفاح : لجدیرون باللقاء اذا قال اخوالنجدۃ السلاح السلاح : یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” الارحام “۔ بہ کے محل پر معفطوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ اس کا محل نصب ہے اس کی مثال یہ ہے۔ فلسنا بالجبال والا الحدیدا “۔ وہ کہتے تھے : انشدک باللہ وبالرحم۔ اظہر یہ ہے کہ اس کو نصب فعل کے اضمار کے ساتھ ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور اس کا قطع کرنا حرام ہے صحت کے ساتھ مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت اسماء ؓ سے فرمایا : جب انہوں نے پوچھا تھا کہ میں اپنی ماں (جو کافرہ تھی) سے صلہ رحمی کروں ؟ ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو (2) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 324) آپ ﷺ نے اسے صلہ رحمی کا حکم دیا، حالانکہ اس کی ماں کافرہ تھی پس اس کی تاکید کی وجہ سے کافر سے صلہ رحمی کرنے میں بھی فضل داخل ہے حتی کہ یہاں تک کہ معاملہ پہنچا کہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : ذوی الارحام کو میراث ملے گی اگر مرنے والے کا کوئی عصبہ اور متعین فرض والا وارث نہ ہو اور جو شخص اپنے ذی رحم کو خریدے کا حرمت رحم کی وجہ سے وہ آزاد ہوجائیں گے اور علماء احناف نے اس قول کی تائید ابو داؤد کی حدیث سے لی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو ذی رحم محرم کا مالک ہوگا وہ غلام آزاد ہوگا (3) (سنن ابی داؤد، کتاب العتق، جلد، 2 صفحہ 194) یہ اکثر اہل علم کا قول ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہی مروی ہے، اور صحابہ میں سے کوئی ان کا مخالف معروف نہیں ہے۔ یہی قول حسن بصری، جابر بن زید، عطا، شعبی، اور زہری رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور اس کی طرف ثوری (رح)، احمد (رح)، اور اسحاق (رح) گئے ہیں، اس مسئلہ میں ہمارے علماء (مالکیہ) کے تین اقوال ہیں۔ (1) یہ آباء اور اجداد کے ساتھ خاص ہے۔ (2) اس سے بھائی مراد ہیں، (3) اور تیسرا قول امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی طرح ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : خرید نے والے پر اس کی اولاد، آباء اور امہات آزاد ہوجائیں گی اور اس کے بھائی اور کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار آزاد نہ ہوگا، صحیح پہلا قول ہے اس حدیث کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کی ہے اس حدیث کو ترمذی اور نسائی نے ذکر کیا ہے، بہتر طریق نسائی ہے، انہوں نے اس کو ضمرہ عن سفیان عن عبداللہ بن دینار عن ابی عمر کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ذی رحم محرم کا مالک ہوگا وہ اس پر آزاد ہوجائے گا، اس حدیث کا ہر راوی عادل ہے اور اس میں کسی نے جرح قدح نہیں کی ہے، کسی ایسی علت کے ساتھ جو اس کے ترک کا موجب ہو مگر نسائی نے اس کے آخر میں کہا : یہ حدیث منکر ہے، دوسرے نے کہا : ضمرہ اس میں منفرد ہے، یہ اصطلاح محدثین میں شاذ اور منکر کا معنی ہے ضمرہ، عادل اور ثقہ ہے، ثقہ کا منفرد ہونا حدیث کے لیے مضر نہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (4) رضاعی ذوی المحارم کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ وہ حدیث کے مقتضی میں داخل نہیں۔ شریک القاضی نے انکی آزادی کا کہا ہ۔ اہل ظاہر اور متکلمین کا نظریہ یہ ہے کہ باپ، بیٹے پر آزاد نہ ہوگا جب وہ اس کا مالک ہوگا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے ” بچہ اپنے والد کا احسان ادا نہیں کرے گا مگر جب وہ اسے غلام پائے پھر اسے خریدے اور آزاد کر دے “ (1) (صحیح مسلم، کتاب العتق جلد 1، صفحہ 495) ان علماء نے کہا : جب شرا (خریدنا) صحیح ہے تو ملک بھی ثابت ہوئی اور مالک کے لئے تصرف کا حق ہے، یہ مقاصد شرع سے ان کی جہالت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ (بقرہ : 83) ” اپنے والدین سے احسان کرو “۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور والدین سے احسان کرنے کو وجوب میں اکٹھا فرمایا اور والد کا بیٹے کی ملکیت میں اور اس کی سلطنت کے تحت ہونا احسان میں نہیں ہے پس اسی پر اس کا آزاد کرنا واجب ہے یا تو اس لیے کہ ملک کی وجہ سے حدیث پر عمل کرتے ہوئے (خریدے اور پھر اسے آزاد کردے) یا احسان کی وجہ سے آیت پر عمل کرتے ہوئے، حدیث کا معنی جمہور علماء کے نزدیک یہ ہے کہ بچہ باپ کی آزادی کا سبب بنا، جب اس نے اسے خریدا تو شریعت نے آزاد کرنے کی نسب اس کی طرف کردی رہا علماء کا اختلاف تو وہ اس کے بارے میں ہے جو ملک کی وجہ سے آزاد ہوگا، پہلے قول کی وجہ وہی ہے جو ہم نے کتاب وسنت کے معنی سے بیان کردی ہے اور دوسرے قول کی وجہ قرابت قریبہ محرمہ کو حدیث میں مذکور باپ کے ساتھ لاحق کرنا ہے اور انسان کے لیے اپنے بیٹے سے زیادہ کوئی قریبی نہیں پس باپ پر محمول ہوگا اور بھائی اس میں اس کو قریب کرتا ہے کیونکہ ابوت کی وجہ سے اسے قریب کرتا ہے، پس وہ کہتا ہے : انا ابن ابیہ میں اس کے باپ کا بیٹا ہوں۔ رہا تیسرا قول : اس کے متعلق ضمرہ کی حدیث ہے، وہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” والارحام “۔ الرحم ہر قسم کے رشتہ دار کو کہا جاتا ہے خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم ہو، ابوحنیفہ ہبہ سے رجوع سے منع میں ذی رحم محرم کا اعتبار کرتے ہیں، چچوں کے بیٹوں کے حق میں رجوع جائز ہے حالانکہ قطعیت موجود ہے اور قرابت حاصل ہے، اسی وجہ سے میراث، ولایت اور دوسرے احکام اس کی وجہ سے متعلق ہوتے ہیں، پس محرم کا اعتبار، نص کتاب پر بغیر کسی دلیل کے زیادتی ہے، احناف اس کو مسخر خیال کرتے ہیں اور اس میں قطعیت کی علت کی طرف اشارہ ہے اور انہوں نے چچا کے بیٹوں، خالوؤں اور خالاؤں کے بیٹوں کے حق میں قطعیت کو جائز قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” ان اللہ کان علیکم رقیبا “۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد (رح) سے (آیت) ” رقیبا “۔ کا معنی حفیظا “۔ (1) (جامع البیان، جلد 3، 4 صفحہ 283) اور ابن زید سے علیما (1) معنی مروی ہے، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” رقیبا “۔ کا معنی حفاظت کرنے والا ہے، بعض علماء نے فرمایا : فعیل بمعنی فاعل ہے۔ الرقیب اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اور الرقیب کا معنی حفاظت کرنے والا اور انتظار کرنے والا ہے۔ تو کہتا ہے : رقبت ارقب رقبۃ ورقبانا، جب تو انتظار کرے، المرقب بلند وبالاجگہ کو کہتے ہیں جس پر رقیب کھڑا ہوتا ہے، الرقیب سات تیروں میں سے تیسرے تیر کو کہتے ہیں جن کے لیے حصے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ رقیب، سانپوں میں سے ایک سانپ ہے، پس یہ لفظ مشترک ہے واللہ اعلم۔
Top