بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
اے لوگو ! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطہ سے سوال کرتے ہو آپس میں اور خبردار رہو قرابت والوں سے بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے،
ربط آیات و سورت
سورة آل عمران کی آخری آیت تقوی پر ختم ہوئی ہے اور یہ سورت بھی حکم تقوی سے شروع ہو رہی ہے، پہلی سورت میں بعض غزوات اور مخالفین کے ساتھ برتاؤ کرنے اور غزوات کے سلسلہ میں مال غنیمت حاصل ہونے پر خیانت کی مذمت اور بعض دیگر امور کا ذکر تھا، اس سورت کے شروع میں اپنوں سے میل جول یعنی حقوق العباد سے متعلق احکام ہیں، مثلاً یتیموں کے حقوق، رشتہ داروں اور بیویوں کے حقوق وغیرہ، لیکن حقوق کچھ تو ایسے ہیں جو قانون انضباط میں آسکتے ہیں اور ان کی ادائیگی بزور قانون کرائی جاسکتی ہے، جیسے عام معاملات بیع و شراء اجارہ و مزدوری کے ذریعہ پیدا ہونے والے حقوق، جو باہمی معاہدات اور صلح کے ذریعہ طے ہو سکتے ہیں، اگر کوئی فریق مقررہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو بزور حکومت بھی دلوائے جاسکتے ہیں، لیکن اولاد، والدین، شوہر اور بیویو یتیم بچے جو اپنی تحویل میں ہوں اور دوسرے رشتہ داران کے باہمی حقوق جو ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی کا مدار، ادب، احترام، دلداری، ہمدردی اور قلبی خیر خواہی پر ہے، اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی کانٹے میں تولی نہیں جا سکتیں، اور معاہدات کے ذریعہ بھی ان کی پوری تعیین مشکل ہے، لہٰذا ان کی ادائیگی کے لئے بجز خوف خدا اور خوف آخرت کے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں، جس کو تقوی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ تقوی کی طاقت حکومت اور قانون کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے، اس لئے اس سورت کو امر بالتقوی سے شروع فرمایا اور ارشاد ہوا
یایھا الناس القواربکم، یعنی ”اے لوگو ! اپنے رب کی مخالفت سے ڈرو“ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اس آیت کو خطبہ نکاح میں پڑھا کرتے تھے اور خطبہ نکاح میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ خطاب یایھا الناس کے ذریعہ فرمایا گیا ہے جس میں تمام انسان شامل ہیں، مرد ہوں یا عورتیں اور نزول قرآن کے وقت موجود ہوں یا آئندہ قیامت تک پیدا ہوں، پھر حکم اتقوا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے لفظ رب کو اختیار کیا گیا جس میں امر تقوی کی علت اور حکمت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جو ذات تمہاری پرورش کی کفیل ہے اور جس کی شان ربوبیت کے مظاہر انسان اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں مشاہدہ کرتا رہتا ہے، اس کی مخالفت اور سرکشی کس قدر خطرناک ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی رب تعالیٰ کی ایک خاص شان کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنی حکمت و رحمت سے تم سب کو پیدا کیا، پھر پیدا کرنے اور موجود کرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی تھیں، ان میں سے ایک خاص صورت کو اختیار فرمایا کہ سب انسانوں کو ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم ؑ سے پیدا کر کے سب کو اخوة و برادری کے ایک مضبوط رشتہ میں باندھ دیا، علاوہ خوف خدا و آخرت کے اس رشتہ اخوة کا بھی یہی تقاضیٰ ہے کہ باہمی ہمدردی و خیر خواہی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اور انسان انسان میں ذات پات کی اونچ نیچ، نسلی اور لونی یا لسانی امتیازات کو شرافت و رذالت کا معیار نہ بنایا جائے، اس لئے فرمایا
الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھاز وجھاوبت منھما رجالا کثیراً ونسآء یعنی ”اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے، آدم سے اس طرح پیدا فرمایا کہ پہلے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا، پھر اس جوڑے کے ذریعہ بہت سے مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔“
غرض یہ پوری آیت ان احکام کی تمہید ہے جو آگے اس سورت میں آنے والے ہیں اس تمہید میں ایک طرف تو پروردگار عالم کے حقوق سامنے رکھ کر اس کی مخالفت سے روکا گیا، دوسری طرف تمام افراد انسانی کو ایک باپ کی اولاد بتلا کر ان میں محبت اور باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات کو بیدار کیا گیا، تاکہ اہل قرابت و یتیموں اور زوجین کے درمیان باہمی حقوق کی ادائیگی دل سے ہو سکے۔
اس کے بعد پھر اتقوا اللہ کا دوبارہ اعلان کیا ایک خاص عنوان سے فرمایاواتقوا اللہ الذین تسآءلون بہ والارحام، یعنی ”اللہ تعالیٰ سے ڈر، جس کے نام پر تم دسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور جس کی قسمیں دے کر دوسروں سے اپنا مطلب نکالتے ہو۔“ آخر میں فرمایاوالارحام، یعنی قرابت کے تعلقات خواہ باپ کی طرف سے ہوں خواہ ماں کی طرف سے، ان کی نگہداشت اور ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے بچو۔
دوسری آیت میں یتیم بچوں کے حقوق کی تاکید اور ان کے اموال کی حفاظت کے احکام ہیں، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے
خلاصہ تفسیر
اے لوگو ! اپنے پروردگار (کی مخالفت سے) ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار (یعنی آدم ؑ سے پیدا کیا، (کیونکہ سب آدمیوں کی اصل وہی ہیں) اور اس (ہی) جاندار سے اس کا جوڑا (یعنی ان کی زوجہ حواء کو) پیدا کیا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلائیں اور (تم سے مکرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کیا کرتے ہو (جس مطالبہ کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ خدا سے ڈر کر میرا حق دیدے، سو جب دوسروں کو خدا کی مخالفت سے ڈرنے کو کہتے ہو، تو معلوم ہوا کہ تم اس ڈرنے کو ضروری سمجھتے ہو تو تم بھی ڈرو) اور (اول تو تمام احکام الہیہ میں مخالفت سے بچنا اور ڈرنا ضرور ہے، لیکن اس مقام پر ایک حکم خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے) کہ قرابت (کے حقوق ضائع کرنے) سے بھی ڈرو، بالیقین اللہ تعالیٰ تم سب (کے حالات کی اطلاع رکھتے ہیں (اگر مخالفت کرو گے مستحق سزا ہو گے) اور جن بچوں کا باپ مر جائے ان کے (مملوک) مال انہی کو پہنچاتے رہو (یعنی انہی کے خرچ میں لگاتے رہو) اور (جب تک تمہارے قبضہ میں ہو) تم (ان کے مال میں شامل کرنے کے لئے ان کی) اچھی چیز سے بری چیز کو مت بدلو (یعنی ایسا مت کرو کہ ان کی اچھی چیز تو نکال لی جاوے اور بری چیز ان کے مال میں ملا دی جاوے) اور ان کے مال مت کھاؤ اپنے مالوں (کے رہنے) تک (البتہ جب تمہارے پاس کچھ نہ رہے تو بقدر حق الخدمت اپنے گذارہ کے لئے ان کے مال سے لینا درست ہے جیس آآگے آوے گا، ومن کان فقراً) ایسی کارروائی کرنا (کہ بری چیز ان کے مال میں شامل کردی یا بلا ضرورت انکے مال سے منقطع ہوا) بڑا گناہ ہے (جس کی وعید آگے آئیگی ان الذین یا کلون اموال الیتامی الخ)
معارف و مسائل
یہ پہلا حکم ہے جو تمہید کے بعد ارشاد فرمایا گیا اور تمام تعلقات قرابت کی نگہداشت پر حاوی اور شامل ہے۔
صلہ رحمی کے معنی اور اس کے فضائل۔
لفظ ارحام، رحم کی جمع ہے، رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے، چونکہ ذریعہ قرابت یہ رحم ہی ہے، اس لئے اس سلسلے کے تعقلات وابستہ رکھنے کو صلہ رحمی اور رشتہ داری کی بنیاد پر جو فطری طور پر تعلقات پید ہوگئے، ان کی طرف سے بےتوجہی و بےالتفاتی برتنے کو قطع رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
احادیث شریفہ میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے، چناچہ ارشاد نبوی ہے۔
”یعنی جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔“
اس حدیث سے صلحہ رحمی کے دو بڑے اہم فائدے معلوم ہوگئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی، دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔
عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے یہ تھے آپ نے فرمایا
”لوگوایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو، اللہ کی رضا جوئی کے لئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو۔
جبکہ عام لوگ نیند کے مزے میں ہوں، یاد رکھو ! ان امور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے۔“
ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ نے اپنی ایک باندی کو آزاد کردیا تھا، جب نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا
”اگر تم اپنے ماموں کو دیدیتیں تو زیادہ ثواب ہوتا۔“
اسلام میں غلام باندی کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب ہے اور اسے بہترین کار ثواب قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود صلہ رحمی کا مرتبہ اس سے بہرحال اعلی ہے۔
اسی مضمون کی ایک اور روایت ہے، آپ نے فرمایا
”یعنی کسی محتاج کی مدد کرنا صرف صدقہ ہی ہے اور اپنے کسی عزیز قریب کی مدد کرنا دو امروں پر مشتمل ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔“
صرف مصرف کے تبدیل کرنے سے دو طرح کا ثواب مل جاتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں قطع رحمی کے حق میں جو شدید ترین وعیدیں روایات حدیث میں مذکور ہیں اس کا اندازہ دو حدیثوں سے بخوبی ہوسکتا ہے، آپ کا ارشاد ہے
”جو آدمی حقوق قرابت کی رعایت نہیں کرتا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔“
”اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔“
اخیر میں پھر دلوں میں ادا حقوق کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے فرمایا
ان اللہ کان علیکم رقیباً یعنی ”اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے جو تمہارے دلوں اور ارادوں سے باخبر ہے۔“ اگر رسمی طور پر شرما شرمی، بےدلی سے کوئی کام بھی کردیا مگر دل میں جذبہ ایثار و خدمت نہ ہوا تو قابل قبول نہیں ہے، اس سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ وہ سب پر ہمیشہ نگران ہے، قرآن کریم کا یہ عام اسلوب ہے کہ قانون کو محض دنیا کی حکومتوں کے قانون کی طرح بیان نہیں کرتا، بلکہ تربیت و شفقت کے انداز میں بیان کرتا ہے، قانون کے بیان کے ساتھ ساتھ ذہنوں اور دلوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔
Top