بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اس نے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلا دیئے اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔
آیت نمبر 1 تا 10 ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اے لوگو، یعنی اے مکہ والو ! تم اپنے رب کے عذاب سے ڈرو اس طریقہ پر کہ اس کی اطاعت کرو۔ جس نے تم کو ایک جان آدم سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا حوآء کو اس کی بائیں پسلیوں میں سے ایک پسلی سے پیدا کیا (حوآء) مد کے ساتھ ہے، اور ان دونوں یعنی آدم و حواء سے بہت سے مرد اور عورت پھیلا دئیے اور اس اللہ سے ڈرو جس کے واسطہ سے تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ اس طریقہ پر کہ ایک دوسرے سے کہتے ہو کہ میں تجھ سے اللہ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں یا تجھ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ اس میں تاء اصل میں سین میں مدغم ہے اور ایک قرائت میں بہ حذف تاء تخفیف کے ساتھ ہے۔ ای تساءلُوْنَ ، اور ذوی الارحام کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو یعنی قطع رحمی کرنے سے ڈرو، اور ایک قراءت میں (اَرْحامِ ) کے کسرہ کے ساتھ ہے بہٖ ، کی ضمیر پر عطف کرتے ہوئے اور وہ آپس میں صلہ رحمی کا بھی واسطہ دیا کرتے تھے۔ بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے یعنی تمہارے اعمال کو محفوظ رکھنے والا ہے تو وہ تم کو ان اعمال کی جزاء دیگا، یعنی وہ اس صفت نگہبانی کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے اور (آئندہ آیت) ایک یتیم کے بارے میں نازل ہوئی کہ جس نے اپنے ولی سے اپنا مال طلب کیا مگر اس نے منع کردیا۔ اور یتیموں کو یعنی وہ چھوٹے بچے کہ جن کا باپ موجود نہیں ہے جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال دیدو اور حرام کو حلال سے تبدیل نہ کرو۔ یعنی حرام کو حلام کے عوض مت لو، جیسا کہ تم یتیم کے مال میں سے عمدہ مال لے کر اور اپنے مال میں سے خراب قسم کا مال اس کی جگہ رکھ کر کرتے ہو، اور ان کے مالوں کو اپنے مالوں سے ملا کر (یعنی اس کی آڑ میں) مت کھاؤ بلاشبہ یہ کھانا گناہ عظیم ہے، اور جب مذکوہ آیت نازل ہوئی تو لوگ یتیموں کی کفالت میں حرج محسوس کرنے لگے اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی زوجیت میں دس دس یا آٹھ آٹھ یتیم بیویاں تھیں اور وہ ان کے درمیان عدل سے کام نہیں لیتے تھے تو آئندہ آیت نازل ہوئی۔ اگر تمہیں یتیموں کے بارے میں عدل نہ کرنے کا اندیشہ ہو اور تم ان کے معاملہ میں (گناہ) سے بچنا چاہتے ہو اور ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی صورت میں بھی انصاف نہ کرنے کا اندیشہ کرو، تو (یتیم لڑکیوں کے علاوہ) سے نکاح کرلو جو تم کو پسند ہوں، مَا، بمعنی مَنْ ہے دو دو سے تین تین سے چار چار سے اس سے آگے نہ بڑھو، لیکن اگر تمہیں ان کے درمیان (بھی) برابری نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے یا اپنی باندیوں پر اکتفاء کرو اس لئے کہ باندیوں کے وہ حقوق نہیں ہوتے جو بیویوں کے ہوتے ہیں، یہ چار سے نکاح یا ایک سے، یا باندی پر اکتفاء زیادتی نہ ہونے کی توقع میں زیادہ قریب ہے اور تم عورتوں کے مہر خوش دلی سے دیدیا کرو صدقات، صَدُقَۃٌ کی جمع ہے صَدُقاتُھنّ ای مھودھُنّ ، نِحلۃً مصدر ہے معنی خوش دلی سے عطیہ دینے کے ہے لیکن اگر وہ خوش دلی سے تمہارے لئے اس میں سے کچھ چھوڑ دیں نَفْسًا، تمیز ہے جو فاعل سے منقول ہے ای طَابَتْ اَنْفُسُھنّ لکم من شیْءٍ مِنْ الصُداقِ فَوَھَبْنَہٗ لکم، تو تم اس شوق سے خوش ہو کر کھاؤ۔ کہ اس کے کھانے میں تمہارا آخرت میں کوئی نقصان نہیں۔ یہ آیت اس شخص پر رد کرنے کے بارے میں نازل ہوئی جو اس میں کراہت سمجھتا تھا۔ اور اے اولیاؤ ! تم کم عقلوں کو جو فضول خرچ ہوں مرد ہوں یا عورت اور بچے وہ مال نہ دو جو تمہارے قبضہ میں ہے (اور) جس کو تمہارے گزران کے لئے مایہ زندگی بنایا ہے، قیامًا، قَامَ کا مصدر ہے یعنی جس کے ذریعہ تم اپنی معاش اور اپنی اولاد کی اصلاح قائم رکھتے ہو تو وہ اس مال کو بلاوجہ صرف کردیں گے، اور ایک قراءت میں قِیْمًا، قیمۃ کی جمع ہے جس کی وجہ سے معاش زندگی قائم رہتی ہے اور اس مال میں سے انہیں کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے بھلائی کی بات کہتے رہو یعنی تم ان سے ان کے مال دینے کے بارے میں اچھے وعدے کرتے رہو کہ جب تم سمجھدار ہوجاؤ گے (تو تمہارا مال تم کو دے دیں گے) اور (ان کے) بالغ ہونے سے پہلے ان کے دین اور لَیْن دَیْن کے معاملات میں ان کی دیکھ بھال کرتے رہو یہاں تک کہ عمر نکاح کو پہنچ جائیں (بالغ ہوجائیں) یعنی نکاح کے اہل ہوجائیں احتلام کے ذریعہ یا عمر کے ذریعہ اور وہ (مدت) پندرہ سال کی تکمیل ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک پس اگر تم ان میں سمجھداری یعنی ان کے دین اور مال کے معاملہ میں صلاح دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالہ کردو اے اولیاؤ ان کے بڑے ہوجانے کے ذر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں ناحق تباہ مت کرو (یعنی ان کے بڑے ہو کر سمجھدار ہونے کے خوف سے بعجلت ان کا مال نہ کھاؤ اس خیال سے کہ بڑے ہونے کے بعد ان کا مال ان کو سونپنا پڑے گا) اور اولیاء میں سے جو مالدار ہوں ان کو چاہیے کہ ان کے یعنی یتیموں کے مال سے بچتے رہیں اور اس کے کھانے سے اجتناب کریں، البتہ جو نادار ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے دستور کے مطابق اپنے عمل کی اجرت کے بقدر کھا سکتا ہے اور جب ان کے مال ان یتیموں کے حوالہ کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو کہ انہوں نے مال و صول کرلیا اور تم بری ہوگئے تاکہ اختلاف واقع نہ ہو۔ (اور اختلاف واقع ہونے کی صورت میں) تم گواہ کی جانب رجوع کرسکو، اور یہ امر اصلاحی ہے (یعنی گواہ بنانے کا حکم استحبابی ہے) اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے یعنی اپنی مخلوق کے اعمال کا محافظ اور ان کا محاسب ہے۔ (آئندہ آیت) اس دستور کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی جو اہل جاہلیت میں رائج تھا اور وہ عورتوں اور بچوں کو میراث نہ دینے کا دستور تھا، وفات پانے والے ماں باپ کے ترکہ میں مردوں یعنی اولاد و اقارب کا حصہ بھی ہے اور والدین اور خویش و اقارب کے ترکہ میں عورتوں کا حصہ بھی ہے، مال خواہ قلیل ہو یا کثیر، اللہ نے اس میں حصہ متعین کیا ہے اور جب تقسیم میراث کے وقت ایسے رشتہ دار آجائیں جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے اور یتیم و مسکین (آجائیں) تو تقسیم سے پہلے تھوڑا بہت ان کو بھی دیدو اور اے اولیاؤ ان حاضر ہونے والوں سے خوش اخلاقی کی بات کہہ دو جبکہ ورثہ (میں) نابالغ بھی ہوں۔ اس طریقہ پر کہ ان سے معذرت کردو کہ تم اس کے مالک نہیں ہوسکتے اسلئے کہ یہ نابالغ بچوں کا مال ہے اور کہا گیا ہے کہ (غیر ورثاء کو دینے کا حکم) منسوخ ہے اور کہا گیا ہے کہ منسوخ نہیں ہے بلکہ لوگ (اس حکم پر) ترک عمل ہی میں سہولت سمجھنے لگے ہیں، اور اس عدم نسخ کے قول کے مطابق امر استحباب کے لئے ہے، اور ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ حکم و جوب کیلئے ہے اور یتیموں کے بارے میں ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے اپنی موت کے بعد چھوٹے ناتواں بچے چھوڑ تے، یعنی قریب المرگ ہونے کی وجہ سے چھوڑنے کے قریب ہوتے کہ جن کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتا تو چاہیے کہ یتیموں کے معاملہ میں اللہ سے ڈریں اور ان کے ساتھ وہی سلوک کریں جو وہ پسند کریں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ کیا جائے اور مرنے والے یعنی (مریض) سے مناسب بات کہیں (مثلا) یہ کہ اس سے کہیں کہ تہائی مال سے کم صدقہ کرو اور باقی ورثہ کے لئے چھوڑ دو اور محتاج بنا کر نہ چھوڑو۔ بیشک ناردا طریقہ سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کھاتے ہیں۔ یعنی پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ (ماکول) آگ میں تبدیل ہوجائے گا اور وہ لوگ عنقریب بھڑکتی ہوئی یعنی شدید آگ میں جائیں گے جس میں وہ جلتے رہیں گے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یٰآیُّھَا النَّاسُ ای اہل مکۃ۔ سوال : مشہور قاعدہ ہے کہ مکی آیتوں میں خطاب یایّھا الناس سے اور مدنی آیتوں میں یایّھا الذین آمنوا سے ہوتا ہے حالانکہ سورة نساء مدنی ہے مگر اس میں خطاب یایّھا الناس سے ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : مذکورہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں، اس کے علاوہ مخاطب یہاں بھی اہل مکہ ہی ہیں۔ قولہ : ای عقابہٗ اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ذات سے احتراز محال ہے مطلب یہ ہے کہ اس کی اطاعت کرکے اس کے عذاب سے بچو۔ قولہ : حوّآء۔ انّما سمیت حواّء لانھا خُلِقتْ من الحیّ ۔ قولہ : تساء لُونَ ، تسائلٌ سے مضارع ہے جمع مذکر حاضر، تم باہم سوال کرتے ہو، اصل میں تَتَسَاءَلونَ تھا تاء ثانیہ کو حذف کردیا گیا۔ قولہ : والارحام، یہ رحم کی جمع ہے بمعنی قرابت رشتہ داری۔ قولہ : اَن یُّقَطّعُوا اس میں اشارہ ہے کہ مضاف محذوف ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ ارحام سے احتراز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ قولہ : کانوا یتناشدون ای یتقاسمون۔ قولہ : الُالیٰ ، یہ اسم موصول ہے جو کہ مذکر مؤنث یعنی الّذی اور اَلّتی میں مشترک ہے۔ اس لئے کہ یتیم ہونا مذکر یا مونث کے ساتھ خاص نہیں ہے اسی لئے ایسا اسم موصول لائے ہیں جو مذکر اور مؤنث دونوں میں مشترک ہے۔ فائدہ : انسانوں میں یتیم اس بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو اور حیوانوں میں جس کی ماں نہ ہو الیتیم فی الاناسی مِنْ قِبَل الْاباء وفی البھائم مِنْ قِبَل الامُّھَات۔ قولہ : یتٰمٰی، یتیم کی جمع الجمع ہے۔ یتیم کی جمع یَتْمٰی بروزن اَسْریٰ اور یتْمٰی کی جمع یَتٰمٰی۔ قولہ : ای اکلَھَا، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اَنَہٗ کی ضمیر اموال کی طرف راجع ہے جو کہ جمع ہے لہٰذا ضمیر مفرد کا لانا درست نہیں ہے۔ جواب : تأکلون سے جو اکل مفہوم ہے اس کی طرف راجع ہے۔ قولہ : تحَرَّجوْا مِنْ ولایۃ الیتٰمٰی، یعنی یتیموں کی ولایت سے بچنے اور باز رہنے کی کوشش کرنے لگے۔ قولہ : فَخَافُوا۔ سوال : فخافوا، جزاء محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جبکہ، فانکحوا، جزاء موجود ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ خافوا، ماضی کا صیغہ نہیں ہے جیسا کہ بادی الرائے میں وہم ہوتا ہے بلکہ یہ امر جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو یتیموں کے مال کے بارے میں ناانصافی کا اندیشہ ہے تو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی صورت میں بھی ناانصافی کا اندیشہ کرو، مطلب یہ ہے کہ ناانصافی کے اندیشہ میں دونوں صورتیں شریک ہیں، اس اشتراک مفہوم پر مفسر علام کا لفظ ایضاً دلالت کر رہا ہے۔ قولہ : اِنکحوھا۔ سوال : جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے حالانکہ یہاں جزاء، فَوَاحِدَۃً ، مفرد ہے۔ جواب : مفسر علام نے انکحوا محذوف مان کر اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ای انکحوا وَاحِدَۃً اس تقدیر کے بعد جزاء جملہ ہوگئی ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں قولہ : اِقتَصَرُوا علی، یہ عبارت بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ اَو مَا ملَکتْ کا عطف انکحوا واحدۃً پر ہے جو کہ عطف مفرد علی الجملہ کے قبیل سے ہے حالانکہ یہ جائز نہیں ہے۔ جواب : یہ ہے کہ مفسر علام نے اقتصروا علیٰ محذوف مان کر اسی سوال کا جواب دیا ہے اقتصروا محذوف ماننے کے بعد عطف جملہ علی الجملہ ہوگیا لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔ سوال : معطوف میں فعل محذوف کو کس مصلحت سے بدل دیا ؟ جبکہ معطوف علیہ میں انکحوا فعل محذوف ہے اور معطوف میں اِقْتَصِروا۔ جواب : اگر معطوف میں فعل کو نہ بدلتے تو تقدیر عبارت یہ ہوتی انکحوا مَا ملکت اَیْمَانکم، اور یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ باندی سے مالک کا نکاح درست نہیں ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : عطیۃً عنً طیب نفسٍ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ نحلۃً مصدر (یعنی مفعول مطلق) کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مفعول مطلق کے لئے مصدر کا فعل کا فعل کے ہم معنی مونا شرط ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ نِحْلَۃً بمعنی عطیۃ ہے لہٰذا اپنے فعل جو کہ آتوا النساء ہے کے ہم معنی ہے اسلئے کہ آتوا، اعطوا کے معنی میں ہے۔ قولہ : ھَنِیْئًا صفت مشبہ (ف ن ض) ھَنَاءً خوش مزہ، پاکیزہ، فعیل، کا وزن واحد جمع سب کے لئے آتا ہے اس لئے یہاں ضمیر واحد سے حال ہے۔ قولہ : مَریْئًا، صفت مشبہ خوشگوار، مَرَاءۃ ٌ مصدر، خوشگوار ہونا (کس) ۔ قولہ : بغَیر حق اس اضافہ سے اس شبہ کو دور کردیا کہ اسراف کے بغیر یتیموں کا مال کھا سکتے ہیں، بغیر حق کا اضافہ کرکے بتادیا کہ ناحق طریقہ سے نہ کھاؤ اسراف ہو یا نہ ہو۔ قولہ : فَلْیَسْتَعْفِفْ (استفعال) واحد مذکر غائب، وہ بچتا رہے، احتراز کرے۔ قولہ : لِئلّا یَقْوَ اختِلافٌ فترجعوا الی البیّنَۃِ ، ای اِنْ وقع اختلافٌ فترجعوا الی البینۃ۔ قولہ : ھذا اَمْرُ اِرْشاد، ای اَمْرُ استحباب، یعنی امام اعظم کے نزدیک گواہ بنانا امر مستحب ہے، اس لئے کہ امام صاحب کے نزدیک اختلاف کی صورت میں ولی کا قول معتبر ہے۔ قولہ : جَعَلَہْ اللہ، اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ نَصیْبًا، جَعَل فعل محذوف کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے نہ کہ مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے۔ اللغۃ والبلاغۃ تَعُوْلُوْا، مضارع جمع مذکر حاضر (ن) مائل ہونا جھکنا، انصاف سے انحراف کرنا، یقال عَالَ المیزانُ اِذَا مَالَ ، وَعَال الحاکم، فی حکمہ : اِذَا جَار۔ فانکحوا مَا طاب لکم، ولم یقل ” مَن “ کما ھو المتبادر فی استعمال ” مَنْ “ کما ھو للعاقل، وَمَا، لغیر العاقل تغلیبًا۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : سورة آل عمران کی آخری آیت تقویٰ پر ختم ہوئی ہے اور یہ سورت تقویٰ کے حکم سے شروع ہو رہی ہے لہٰذا مناسبت ظاہر ہے اس سورت کا نام سورة النساء ہے۔ اس سورت میں چونکہ عورتوں کے بہت سے احکام و مسائل کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس کا نام سورة النساء رکھا گیا ہے۔ یٰایَّھُا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ، یایُّھَا الناس میں خطاب پوری نوع انسانی سے ہے، خواہ کسی نسل، کسی رنگ، کسی قوم، کسی جنس، کسی ملک کا ہو، قرآن کا پیغام انسانیت تمام بنی آدم کے لیے ہے، بعض مفسرین نے جن میں مفسر علام سیوطی بھی شامل ہیں اس کو اہل مکہ کے لیے خاص سمجھا ہے مگر ان کے پاس کوئی وزنی دلیل تخصیص نہیں ہے، خصوصاً جبکہ سورت مکی بھی نہیں بلکہ بالاتفاق مدنی ہے اور لفظ ناس ہے بھی نوع بشر کے لئے، اب رہا یہ ضابطہ کہ یایّھا الناس سے خطاب اہل مکہ کو ہوتا ہے تو یہ قاعدہ اکثری ہے نہ کہ کلی۔ خِطَابٌ عَامٌّ لِیْس خاصًّا بقومٍ دون قومٍ فلا وَجْہَ تَخْصیْصِھَا بِاَھْلِ مَکَّۃَ ، لَفْظُ ، الناس اسمٌ لجنس البشر۔ (المنار) وحدت انسانی کی قرآن میں اہمیت، وحدت نوع انسانی کا یہ سبق اپنے عملی اور دور رس نتائج کے لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ انسانوں کے جد اعلیٰ ہر گورے اور ہر کالے، ہر وحشی اور ہر مہذب، ہر ہندی اور ہر چینی اور ہر فرنگی کے ایک ہی ہیں اور وہ آدم ہیں یہ نہیں کہ فلاں نسل کے مورث اعلی کوئی اور تھے اور فلاں نسل کے کوئی اور، اور نہ یہ کہ برہمن ذات والے برہماجی کے منہ سے پیدا ہوئے اور چھتری نسل والے ان کے بازو اور سینے سے اور ویش ذات والے ان کے پیٹ سے، اور شودر ذات کے لوگ ان کے پیروں سے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان انسان سب ایک ہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے نہ کوئی اونچا ہے اور نہ کوئی نیچا، اونچ نیچ اگر ہے تو وہ محض عمل اور کردار کے اعتبار سے ہے زیادہ سے زیادہ نوع انسانی اگر تقسیم ہوسکتی ہے تو وہ یہ کہ نوع انسانی کی دو قسمیں ہیں نیک اور بد۔ خدا ترس اور ناخدا ترس اس کے علاوہ نوع انسانی کی کوئی تیسری قسم نہیں ہے اور عقل اس کو باور بھی نہیں کرتی کہ ایک باپ اولاد کے کچھ افراد کسی دوسرے خطہ ارض میں جا کر آباد ہوجائیں تو وہ ایک الگ نسل ہوجائیں یا ایک باپ کی اولاد میں بعض گورے اور بعض کالے ہوجائیں تو ان کی نسل بھی مختلف ہوجائے یا ایک باپ کی اولاد میں سے بعض ایک لب و لہجہ میں اور دوسرے بعض دوسرے لب و لہجہ میں بات کرنے لگیں تو ان کی نسل ہی بدل جائے۔ انسان کو پیدا کرنے کی مختلف صورتیں اور طریقے ہوسکتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک خاص صورت کا اختیار فرمایا، کہ سب انسانوں کو ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرما کر سب کو اخوت اور برادری کے مضبوط رشتہ میں باندھا دیا اس کا یہ تقاضہ ہے کہ باہمی ہمدردی اور خیر خواہی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اور ذات پات کی اونچ نیچ اور لونی و نسلی یا لسانی و علاقائی امتیازات کو شرافت و رذالت کا معیار نہ بنایا جائے ” اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ “ دادی حوآء کی تخلیق کی تفصیلی کیفیت سے قرآن مجید یکسر خاموش ہے اور تقریباً یہی حال حدیث کا بھی ہے جس مشہور حدیث کی رو سے حضرت حوآء کا آدم کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں ذکر نہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ہے اور نہ حضرت حوآء کا، بلکہ محض عورت کی پیدائش اور اس کی کج سرشتی کا بیان ہے (ماجدی) آثار میں جو روایت ملتی ہے وہ روایت، تورات کی آواز کی بازگشت ہے اور تورات کا بیان حسب ذیل ہے۔ ” خداوند نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا۔ اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو آدم سے نکالی تھی ایک صورت بنا کر آدم کے پاس بھیجی “۔ (پیدائش 23، 22: 2) وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا، میں مِنْھَا کی ضمیر نفس کی طرف راجع ہے جس سے حضرت آدم (علیہ السلام) مراد ہیں یعنی آدم سے ان کی بیوی حضرت حوآء کو پیدا کیا، حضرت آدم سے حواء کس طرح پیدا ہوئیں اس کی قدرے تفصیل تورات کی عبارت سے اوپر گزر چکی ہے، اسی مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے، ” اِنَّ المرأۃ خُلِقَتْ مِنْ ضِلْعٍ واِنَّ اَعْوَجَ شیْءٍ فی الضلع اَعْلاہُ “ (صحیح بخاری بدء الخلق) عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہیے تو توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مِنْھا، کی ضمیر ھا، عموماً نفس کی طرف لوٹائی گئی ہے لیکن ایک قول یہ بھی نقل ہوا ہے کہ منھا یہاں من جنسھا کے مرادف ہے۔ القول الثانی : ماھو اختار ابو مسلم الاصفھانی أنّ المرادَ من قولہ ” خَلَقَ منھا زَوْجَھَا “ ای من جنسھا (کبیر) ویحتملُ ان یکون المعنی من جنسہٖ لامن نفسہٖ حقیقۃً (نھر) اور یہی قول ابو مسلم کے علاوہ ابن بحر سے بھی منقول ہے اور نفس کو جنس کے معنی میں قرآن مجید میں بار بار لایا گیا ہے جیسا کہ صاحب منار نے تصریح کے ساتھ اپنے یہاں نقل کیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے محض بہ طور تشبیہ کے ارشاد فرمائی گئی ہو اور مقصود محض اس کی کج روی کو بیان کرنا ہو جیسا کہ مذکورہ حدیث کا مضمون اس کی کھلی تائید کرتا ہے۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن میں انسان کی پیدائش کو ” خُلِقَ الانسان من عجل “ کہہ کر جلد بازی اور شتابی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یَحْتَمِلُ اَنْ یکونَ ذلک علی جھۃِ التمثیل لاضطراب اَخْلاقِھِنّ وکونھن لا یَثْبُتْنَ علی حالۃٍ وَاحِدَۃٍ کما جاء خُلِقَ الانسان مِنْ عجلٍ (الآیۃ اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ حدیث میں ذکر جنس عورت کا ہے نہ کہ شخصاً حضرت حواء کا اور بعض شارحین حدیث اسی طرف گئے ہیں، مثلا کرمانی حدیث مذکورہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ فطرت نسوانی کی کجی کی طرف صرف اشارہ ہے (مجمع ابحار الانوار۔ جلد 2) بخاری شریف کی ایک حدیث میں تو بالکل صاف ہے کہ عورت مثل پسلی کے ہے۔ عن ابی ہریرہ انّ رسول اللہ ﷺ قال المرأۃُ کا لضلع اِن اَقَمْتَھَا کسَرْتَھَا (بخاری کتاب انکاح) پسلی بول کر کجی اور انحراف کی طرف اشارہ ہے۔ وَالارحام، اس کا عطف، اللہ، پر ہے مطلب یہ ہے کہ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے باطے توڑنے سے بھی بچو، اس سے مَحرْمَ اور غیر مَحرْمَ دونوں رشتے مراد ہیں رشتے ناطوں کو توڑنا سخت گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں حدیث میں قطع رحمی کرنے والے کیلئے سخت وعید وارد ہوئی ہے ورد فی الحدیث الرحم معلقۃ بالعرش تقول الا مَن وصلنی وَصَلَہٗ اللہ ومَن قطعنی قطعہ اللہ، رحم عرش الہیٰ دعا کرتا رہتا ہے کہ مجھے جو جوڑے رکھے اللہ اسے جوڑے رکھے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹے۔ اور صلہ رحمی کی بڑی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔
Top