Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 43
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے اِلَّا رِجَالًا : مردوں کے سوا نُّوْحِيْٓ : ہم وحی کرتے ہیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اے نبی ﷺ ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں ، آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے ، اہل ذکر سے پوچھ لو ، اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔
آیت نمبر 43 تا 44 یعنی اس سے قبل ہم نے جو رسول بھیجے تھے وہ آدمی ہی تھے۔ فرشتے نہ تھے۔ نہ آدم اور فرشتوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق تھے۔ البتہ یہ برگزیدہ لوگ تھے۔ نوحی الیھم (16 : 43) “ جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے “ جیسا کہ آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ ان کے فرائض بھی یہی تھے کہ دعوت کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ جس طرح آپ کا بھی یہی فریضہ ہے۔ فسئلوا اھل الذکر (16 : 43) ” اہل ذکر سے پوچھ لو “۔ یعنی اہل کتاب سے پوچھ لو جن کے پاس بہت سے رسول آئے کہ یہ رسول آدمی تھے یا فرشتے یا کوئی اور مخلوق۔ ان کنتم لا تعلمون (16 : 43) ” اگر تم خود نہیں مانتے “۔ ان رسولوں کو کتابیں بھی دی گئیں اور دلائل بھی دئیے گئے۔ عربی میں زیر کے معنی متفرق کتابوں کے ہوتے ہیں۔ وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم (16 : 44) ” اور ہم نے اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لئے اتاری گئی ہے “۔ نبی آخر الزمان کا بیان ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو پہلے اہل کتاب تھے ، جنہوں نے اپنی کتاب میں اختلاف کیا اور قرآن آیا اور ان کے اختلافات کا فیصلہ کردیا اور مسئلہ مختلفہ میں حق بات کہہ دی۔ ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو ان کے سوا آپ کے معاصر تھے ، جن کے سامنے قرآن مجید نازل ہوا تا کہ لوگ اللہ کی آیات اور قرآن کی آیات دونوں میں غورو فکر کریں۔ ولعلھم یتفکرون (16 : 44) ” قرآن مجید میں ہر وقت انسانوں کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور انسانی شعور کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ درس ، جس کا آغاز مستکبرین اور مکارین کی سمت ہوا تھا ، اس کے آخر میں قارئین کو چند وجدانی احساس دلائے جاتے ہیں۔ پہلا احساس یہ دلایا جاتا ہے کہ انسان کو رات اور دن کے کسی بھی وقت اللہ کے عذاب اور اللہ کی جوابی تدبیر سے بےخوف نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرا احساس یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا چاہئے اور اس کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنا چاہئے۔ یہ انسان ہی ہے جو تکبر کرتے ہوئے غافل اور منکر ہوجاتا ورنہ اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتی ہے۔
Top