Al-Qurtubi - At-Taghaabun : 9
یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ : جس دن وہ جمع کرے گا تم کو لِيَوْمِ الْجَمْعِ : جمع کرنے کے دن ذٰلِكَ : یہ يَوْمُ التَّغَابُنِ : دن ہے ہار جیت کا ۭوَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو ایمان لائے گا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيَعْمَلْ صَالِحًا : اور عمل کرے گا اچھے يُّكَفِّرْ عَنْهُ : دور کردے گا اس سے سَيِّاٰتِهٖ : اس کی برائیاں وَيُدْخِلْهُ : اور داخل کرے گا اس کو جَنّٰتٍ تَجْرِيْ : باغوں میں ، بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : جن کے نیچے نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ : ہمیشہ رہنے والے ہیں ان جنتوں میں اَبَدًا : ہمیشہ ہمیشہ ذٰلِكَ : یہی لوگ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی ہے بہت بڑی
جس دن وہ تم کو اکٹھا ہونے (یعنی قیامت) کے دن اکٹھا کرے گا وہ نقصان اٹھانے کا دن ہے اور جو شخص خدا پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے
مسئلہ نمبر 1۔ یوم یجمعکم الیوم الجمع یوم میں عالم لتنبون ہے یا خبیر ہے کیونکہ اس میں وعید کا معنی موجود ہے۔ گویا فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے گا جس دن تمہیں جمع کرے گا یا اذکر فعل جو مضمر ہے وہ اس میں عامل ہے۔ غبن کا معنی نقص ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے، غبنہ غبنا جب کم قیمت کے ساتھ وہ کوئی چیز لے عام قرأت یجمعکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واللہ بما تعملون خبیر۔ (الحدید) اس کے بارے میں خبر دی اور اللہ تعالیٰ کا نام پہلے ذکر کیا ہے اس لیء خبیر اس کے مناسب ہے۔ نصر ابن ابی اسحاق، حجدری، یعقوب اور سلام نے نجمعکم پڑھا۔ یہ قراء والنور الذی انزلنا کی موافقت کا اعتبار کرتے ہیں۔ یوم الجمع سے مراد وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اولین، آخرین، انسانوں، جنوں، آسمان والوں اور زمین والوں کو مع کرے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس روز اللہ تعالیٰ ہر بندے اور اس کے عمل کو جمع کرے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، یوم الجمع اس لئے فرمایا کیونکہ اس میں وہ ظالم اور مظلوم کو جمع فرمائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ ہر نبی اور اس کے امتی کو جمع فرمائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کیونکہ اس اللہ تعالیٰ اہل طاعت کے ثواب اور اہل معصیت کے عقاب کو جمع فرمائے گا۔ ذلک یوم التغابن یہ قیامت کا دن ہے (1) ۔ جس طرح ہا : الا انما الرحات یوم التغابن خبردار ! راحتیں قیامت کے دن ہی ہوں گی۔ یوم قیامت کو یوم تغابن کا نام دیا کیونکہ اس میں جنتی، جہنمیوں سے غبن کریں گے یعنی جنتی جنت لے لیں گے اور جہنمی جہنم کو لے لیں گے۔ یہ مبادلہ کے طریقہ پر ہوگا۔ غبن اس لئے واقع ہوگا کیونکہ انہوں نے خیر کو شر، عمدہ کو ردی اور نعیم کو عذاب کے بدلے بدلا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : غبنت فلانا جب تو اس کے ہاتھ بیچے یا اس سے خریدے اور نقص و کمی اس پر واقع ہو اور غلبہ تیرے لئے ہو یہی کیفیت اہل جنت اور اہل نار کی ہوگی جس کی وضاحت بعد میں آئے گی۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : غبنت الثوب وخبنتہ جب وہ تیری مقدار اور قد سے لمبا ہو اور اس سے کسی چیز کو سی دے تو یہ بھی نقصان ہے۔ مغابن جو ڈھانچے اور ہئیت میں سے دہری ہوجائے ج طرح ابطن (بغلیں) اور فخذین (دونوں رانیں) مفسرین نے کہا، مغبون اسے کہتے ہیں جنت میں جس کے اہل اور منازل میں غبن واقع ہوجائے۔ اس روز ایمان کے ترک کرنے کی وجہ سے ہر کافر خسارے میں ہوگا اور ہر مومن کا نقصان احسان میں کتواہی اور دنوں کو ضابئع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوگا۔ زجاج نے کہا، جنت میں جس کی منزل بلند ہوگی وہ کم متربہ سے غبن کرنے والا ہوگا۔ مسئلہ نمبر 2۔ اگر یہ کہا جائے : وہ کون سا معاملہ ہے جو ان دونوں کے درمیان واقع ہوا یاں تک کہ اس میں غبن واقع ہواڈ ایک قول یہ کیا گیا ہے، بیع و شراء میں غبن میں مجاز کا قاعدہ جاری ہو رہا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : اولئک الذین اشتروا الضللۃ بالھدی (البقرۃ : 16) جب یہ فرمایا کہ کفار نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے حاصل کرلیا اور انہوں نے تجارت میں کوئی نفع حاصل نہ کیا بلکہ انہوں نے نقصان اٹھایا تو یہ بھی ذکر کیا کہ ان کے ساتھ غبن کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنتیوں نے دنیا ترک کر کے آخرت کو خریدا اور جہنمیوں نے آخرت ترک کر کے دنیا کو خریدا۔ مجازاً یہ بھی مبادلہ کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو دو اجزاء میں تقسیم کیا۔ ایک فریق جنت میں اور ایک فریق آگ میں، ہر ایک کی منزل جنت اور جہنم میں رکھی گئی ہیں۔ یہ امر حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بےی اور مددگار چھوڑنا بندے پر غالب آجاتا ہے جس طرح ہم اس سورت اور دوسری سورتوں میں ب یان کرچکے ہیں تو وہ جہنمی ہوجاتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ کی جابن سے توفیق حاصل ہوتی ہے اسے محروم کا مکان بھی دے دیا جاتا ہے اور جس کو توفیق حاصل ہوتی ہے جہنم میں اس کا مکان محروم کو دے دیا جاتا ہے، گویا یوں مبادلہ واقع ہوا اور تغابن حاصل ہوا۔ لغت اور قرآن میں بیشمار مثلہ موجود ہیں۔ نشر آثار میں ان سب کو جمع کردیا گیا ہے جبکہ اس کتاب میں یہ بکھری ہوئی ہیں۔ بعض اوقات اس تبادلہ کو وراثت سے تعبیر کیا گیا ہے جس طرح ہم نے قد افلح المومنون۔ (المومنون) میں بیان کیا ہے۔ بعض اوقات تغابن اس دن کے علاوہ میں واقع ہوتا ہے جس کی وضاحت بعد میں آئے گی لیکن یہاں ایسے تغابن کا ارادہ کیا جس کی کمی کو پورا کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وہ تغابن انتہاء درجے کا ہے۔ حسن بصری اور اقتادہ نے کہا : ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ تغابن کی تین قسمیں ہیں۔ ایسا آدمی جس نے علم سیکھا اسے دوسرے لوگوں کو سکھایا اور خود اسے ضائع کردیا، اس پر عمل نہ کیا تو وہ بدخت ہوگیا۔ جس نے اس سے سیکھا تھا اس نے اس پر عمل کیا تو وہ نجتا پا گیا۔ ایک ایسا آدمی جس نے کئی طریقوں سے مال کمایا اس سیم ال کا سوال کیا جاتا ہے اور وہ بخل سے کام لیتا ہے اور وہ اس کے باعث اپنے رب کی اطاعت میں کتواہی کرتا ہے اور اس مال میں کوئی بھلائی کا کام نہیں کرتا، وہ اس مال کو وارث کے لئے چھوڑ جاتا ہے اس مال میں اس کے لئے کوئی نفع نہیں۔ وہ وارث اس مال میں اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے۔ ایک ایسا آدمی جس کا ایک غلام تھا، وہ آدمی اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اور سعادت مند ہوجاتا ہے اور آقا اپنے رب کی معصیت کرتا ہے تو وہ بدبخت ہوجاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے انہوں نے کہا، ” اللہ تعالیٰ مرد اور عورت کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو فرمائے گا : تم دونوں کہو جو تم کہنا چاہتے ہو۔ مرد عرض کرے گا : اے میرے ربچ تو نے اس کا نفقہ مجھ پر لازم کیا۔ میں نے اسے حلال و حرام سب کھلایا۔ یہ مدعی اس مال کا مطالبہ کرتے ہیں میرے پاس تو کچھ بھی باقی نہیں جو ان کے حقوق پورے کرسکوں۔ عورت عرض کرے گی : اے میرے ربچ ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اسے کہا ہو کہ تو حرام مال حاصل کر۔ میں نے اسے حلال سمجھ کر ہی کھایا اور اس نے میری رضا کی خاطر تیری نافرمانی کی۔ میں اس کیلئے اس پر راضی نہیں اسے اپنی رحمتوں سے دور کر دے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا، تو نے سچ کہا۔ اسے جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا اور عورت کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ وہ عورت جنت کے درجات سے اس کی طرف جھانکے گی اور اسے کہے گی : غبناک، غبناک جس کے ساتھ تو بدبخت ہوا ہم اس کے ذریعے سعادت مند ہوئے۔ یہی یوم تغابن ہے۔ “ مسئلہ نمبر 3۔ ابن عربی نے کہا، ہمارے علماء نے ذلک یوم التغابن سے یہ استدلال کیا ہے کہ دنیاوی معاملات میں بھی غبن جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تغابن کو قیامت کے دن کے ساتھ خاص کیا ہے۔ فرمایا : ذلک یوم التغابن یہ اختصاص اس امر کا فائدہ یدتا ہے کہ دنیا میں کوئی غبن نہیں جب کوئی آدمی بیع میں غبن پر مطلع ہو تو جب وہ ثلث پر زائد ہو تو اسے رد کردیا جائے گا، بغدادیوں نے اسے اتخیار کیا ہے اور کئی وجوہ سے اس پر استدلال کیا۔ ان میں سے ایک نبی کریم ﷺ کا حضرت حبان بن منقذ کے لئے ارشاد ہے : اذا بایعت فقل لاخلابۃ ولک الخیار ثلاثا جب تو خریدو فروخت کرے تو کہہ دے، کوئی دھوکہ نہیں نہیں ہوگا اور تیرے لئے تین دن تک خیار (شرط) ہوگا۔ اس میں طویل سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ ہم نے اسے اختلافی مسائل میں ذکر کیا ہے۔ اس کا نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں غبن بالا جماع ممنوع ہے یہی دین کا حکم ہے کیونکہ غبن دھوکہ کے باب سے تعلق رکھتا ہے جو ہر ملت میں شرعاً حرام ہے لیکن تھوڑے سے غبن سے عموماً بچنا ممکن نہیں۔ شرع میں یہ امر گزر چکا ہے۔ اگر ہم اس کے لوٹانے کا حکم دیں تو بیع کبھی بھی نافذ نہ ہو سکے گی کیونکہ بیع تھوڑے بہت غبن سے خالی نہیں ہوتی۔ ہاں کثیر سے احتراز ممکن ہے تو اسے رد کرنا واجب ہے۔ قلیل اور کثیر میں فرق شریعت میں معلمو ہو معروف قا اعدہ ہے ہمارے علماء نے اس حد تکے لئے ثلث کو مقدر کیا ہے کیونکہ وہ ثلث (ایک تہائی) کو وصیت وغیرہ میں پاتے ہیں۔ اس تعبیر کی بنا پر معنی یہ ہوگا وہ تغابن کا دن ہے جو مطلقاً جائز ہے اس کی کوئی تفصیل نہیں یا وہ ایسے تغابن کا دن ہے جس کا کبھی بھی تدارک نہ کیا جاسکے گا کیونکہ دین کا تغابن دو طریقوں سے دور کیا جاسکتا ہے۔ بعض اموال میں رد کرنے کے ساتھ یا کسی دوسری بیع یا دوسرے سامان میں نفع حاصل کرنے کے ساتھ مگر جو آدمی جنت کو پانے میں خسارہ میں رہا تو اس کا کبھی بھی تدارک نہیں کیا جاسکتا۔ بعص صوفیا نے کہا، اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق پر غبن کو لکھ دیا ہے۔ کوئی آدمی بھی اپنے رب سے ملاقات نہیں کرے گا مگر وہ مغبون ہوگا کیونکہ اس کے لئے عمل میں پورا حق ادا کرنا ممکن نہیں یہاں تک کہ اسے پورا ثواب حاصل ہو۔ ایک حدیث میں بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے (آیت) (1) کوئی بندہ اللہ سے ملاقات نہیں کرے گا مگر وہ آدم ہوگا۔ اگر گناہگار ہوگا تو وہ کہے گا : اس نے اچھا عمل کیوں نہیں کیا اگر وہ محسن ہوگا تو وہ کہے گا : اس نے زیادہ عمل کیوں نہیں کیا۔ نافع اور ابن عامر نے یکفر اور یدخلہ کو نون کے ساتھ اور باقی فراء نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top