Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - At-Taghaabun : 9
یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ
: جس دن وہ جمع کرے گا تم کو
لِيَوْمِ الْجَمْعِ
: جمع کرنے کے دن
ذٰلِكَ
: یہ
يَوْمُ التَّغَابُنِ
: دن ہے ہار جیت کا
ۭوَمَنْ يُّؤْمِنْۢ
: اور جو ایمان لائے گا
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَيَعْمَلْ صَالِحًا
: اور عمل کرے گا اچھے
يُّكَفِّرْ عَنْهُ
: دور کردے گا اس سے
سَيِّاٰتِهٖ
: اس کی برائیاں
وَيُدْخِلْهُ
: اور داخل کرے گا اس کو
جَنّٰتٍ تَجْرِيْ
: باغوں میں ، بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ
: جن کے نیچے نہریں
خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ
: ہمیشہ رہنے والے ہیں ان جنتوں میں
اَبَدًا
: ہمیشہ ہمیشہ
ذٰلِكَ
: یہی لوگ
الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ
: کامیابی ہے بہت بڑی
(اِس کا پتہ تمہیں اُس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کواکٹھا کرے گا۔
19
وہ دن ہوگا ایک دُوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔
20
جو اللہ پر ایمان لایاہے اور نیک عمل کرتا ہے،
21
اللہ اُس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اُسے ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے
سورة التَّغَابُن
19
اجتماع کے دن سے مراد قیامت، اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة ہود میں فرمایا ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسْ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ، " وہ ایک ایسا دن ہوگا جس میں سب انسان جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا " (آیت
103
)۔ اور سورة واقعہ میں فرمایا قُلْ اِنَّ الْاَ وَّ لِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لَمَجْمُوْعُوْنَ الیٰ مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ، " ان سے کہو کہ تمام پہلے گزرے ہوئے اور بعد میں آنے والے لوگ یقیناً ایک مقرر دن کے وقت جمع کیے جانے والے ہیں " (آیت
50
)۔ سورة التَّغَابُن
20
اصل میں لفظ یَوْمُ التَّغابُنِ استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اردو زبان تو کیا، کسی دوسرے زبان کے بھی ایک لفظ، بلکہ ایک فقرے میں اس کا مفہوم ادا نہیں کیا جاسکتا۔ خود قرآن مجید میں بھی قیامت کے جتنے نام آئے ہیں، ان میں غالباً سب سے زیادہ پُر معنی نام یہی ہے۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تشریح ناگزیر ہے۔ تغابُن غبن سے ہے جس کا تلفظ غَبُن بھی ہے اور غَبَن بھی۔ غَبُن زیادہ تر خریدو فروخت اور لین دین کے معاملہ میں بولا جاتا ہے اور غَبَن رائے کے معاملہ میں۔ لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں غَبَنُوا خَبَرالنَّاقَۃ، " ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی اونٹنی کہاں گئی "۔ غَبَنَ فُلَاناً فِی الْبَیْعِ ، " اس نے فلاں شخص کو خریدو فروخت میں دھوکا دے دیا "۔ اس نے فلاں شخص کو گھاٹا دے دیا "۔ غَبِنْتُ مِنْ حَقِّ عِنْدِ فلانٍ ، " فلاں شخص سے اپنا حق وصول کرنے میں مجھ سے بھول ہوگئی " غَبِیْن، " وہ شخص جس میں ذہانت کی کمی ہو اور جس کی رائے کمزور ہو " مَغْبُوْن، " وہ شخص جو دھوکا کھا جائے "۔ لاغبن، الغفلۃ، النسیان، فوت الحظ، ان یبخس صاحبک فی معاملۃ بینک و بینہ لضرب من الاخفاء، " غبن کے معنی ہیں غفلت، بھول، اپنے حصے سے محروم رہ جانا، ایک شخص کا کسی غیر محسوس طریقے سے کاروبار یا باہمی معاملہ میں دوسرے کو نقصان دینا "۔ امام حسن بصری نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے کو بیع میں دھوکا دے رہا ہے تو فرمایا ھٰذٰا یغبن عقلک " یہ شخص تجھے بیوقوف بنا رہا ہے "۔ اس سے جب لفظ تغابن بنایا جائے تو اس میں دو یا زائد آدمیوں کے درمیان غبن واقع ہونے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ تَغَابَنَ الْقَوْمُ کے معنی ہیں بعض لوگوں کا بعض لوگوں کے ساتھ غبن کا معاملہ کرنا۔ یا ایک شخص کا دوسرے کو نقصان پہنچانا اور دوسرے کا اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا جانا۔ یا ایک کا حصہ دوسرے کو مل جانا اور اس کا اپنے حصے سے محروم رہ جانا۔ یا تجارت میں ایک فریق کا خسارہ اٹھانا اور دوسرے فریق کا نفع اٹھا لے جانا۔ یا کچھ لوگوں کا کچھ دوسرے لوگوں کے مقالہ میں غافل یا ضعیف الرائے ثابت ہونا۔ اب اس بات پر غور کیجیے کہ آیت میں قیامت کے متعلق فرمایا گیا ہے ذٰلِکَ یَوْ مُ التَّغَابُنِ ، " وہ دن ہوگا تغابن کا "۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا میں تو شب و روز تغابن ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن یہ تغابن ظاہری اور نظر فریب ہے، اصل اور حیقی تغابن نہیں ہے۔ اصل تغابن قیامت کے روز ہوگا۔ وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کسے مل گیا اور کون اپنے حصے سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور کون ہوشیار نکلا۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایۂ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر اپنا دیوالہ نکال دیا، اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے لوٹ لیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہو سکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔ مفسرین نے یوم التغابن کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے متعدد مطلب بیان کیے ہیں جو سب کے سب صحیح ہیں اور اس کے معنی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لوٹ لیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری کی وہ حدیث کرتی ہے جو انہوں نے کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا " جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دیا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ برا عمل کرتا، تاکہ وہ اور زیادہ شکر گزار ہو۔ اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیا ہوتا، تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو " بعض اور مفسرین کہتے ہیں کہ اس روز ظالم کی اتنی نیکیاں مظلوم لوٹ لے جائے گا جو اس کے ظلم کا بدلہ ہو سکیں، یا مظلوم کے اتنے گناہ ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے جو اس کے حق کے برابر وزن رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ قیامت کے روز آدمی کے پاس کوئی مال و زر تو ہوگا نہیں کہ وہ مظلوم کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی ہر جانہ یا تاوان دے سکے۔ وہاں تو بس آدمی کے اعمال ہی ایک زر مبادلہ ہوں گے۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا میں کسی پر ظلم کیا ہو وہ مظلوم کا حق اسی طرح ادا کرسکتے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہو ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے، یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے کر اس کا جرمانہ بھگتے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ بخاری، کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، " جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی پر کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ یہیں اس سے سبکدوش ہولے، کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہونگے ہی نہیں۔ وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی، یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے "۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن انیس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا " کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جاسکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ نہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو، حتیٰ کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہوگا "۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے بُچّے ہوں گے ؟ فرمایا " اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہوگا "۔ مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا، " جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ " لوگوں نے عرض کیا ہم میں سے مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال متاع کچھ نہ ہو۔ فرمایا " میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوٰۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو، مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال مار کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا۔ پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں۔ اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکا یا جاسکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے گئے، اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا "۔ ایک اور حدیث میں، جسے مسلم اور ابو داؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ " کسی مجاہد کے پیچھے اگر کسی شخص نے اس کی بیوی اور اس کے گھر والوں کے معاملہ میں خیانت کی تو قیامت کے روز وہ اس مجاہد کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور اس کو کہا جائے گا کہ اس کی نیکیوں میں سے جو کچھ تو چاہے لے لے " پھر حضور ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا " پھر تمہارا کیا خیال ہے " ؟ یعنی تم کیا اندازہ کرتے ہو کہ وہ اس کے پاس کیا چھوڑ دے گا ؟ بعض اور مفسرین نے کہا ہے کہ تغابن کا لفظ زیادہ تر تجارت کے معاملہ میں بولا جاتا ہے۔ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس رویے کو جو کافر اور مومن اپنی دنیا کی زندگی میں اختیار کرتے ہیں، تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مومن اگر نافرمانی کا راستہ چھوڑ کر اطاعت اختیار کرتا ہے اور اپنی جان، مال اور محنتیں خدا کے راستے میں کھپا دیتا ہے تو گویا وہ گھاٹے کا سودا چھوڑ کر ایک ایسی تجارت میں اپنا سرمایہ لگا رہا ہے جو آخر کار نفع دینے والی ہے۔ اور ایک کافر اگر اطاعت کی راہ چھوڑ کر خدا کی نافرمانی اور بغاوت کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو گویا وہ ایک ایسا تاجر ہے جس نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے اور آخر کار وہ اس کا خسارہ اٹھانے والا ہے۔ دونوں کا نفع اور نقصان قیامت کے روز ہی کھلے گا۔ دنیا میں یہ ہوسکتا ہے کہ مومن سراسر گھاٹے میں رہے اور کافر بڑے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مگر آخرت میں جا کر معلوم ہوجائے گا کہ اصل میں نفع کا سودا کس نے کیا ہے اور نقصان کا سودا کس نے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں البقرہ، آیات
16
۔
175
۔
207
۔ آل عمران
77
۔
177
۔ النساء
74
۔ التوبہ
111
۔ النحل
95
۔ فاطر
29
۔ الصف
10
۔ ایک اور سورت تغابن کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بد کردار خاندانوں کے افراد، ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو، چوروں اور ڈاکوؤں کے جتھے، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین کے گٹھ جوڑ، بےایمان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ، گمراہی اور شرارت و خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کی علمبردار حکومتیں اور قومیں، سب کا باہمی ساز باز اسی اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ بھائی، بیوی، شوہر، اولاد، دوست، رفیق، لیڈر، پیر، مرید، یا حامی و مددگار سمجھ رہا تھا وہ در اصل میرا بد ترین دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محنت، عداوت میں تبدیل ہوجائے گی۔ سب ایک دوسرے کو گالیاں دین گے، ایک دوسرے پر لعنت کریں گے، اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے۔ یہ مضمون بھی قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے جس کے چند مثالیں حسب ذیل آیات میں دیکھی جاسکتی ہیں البقرہ
167
۔ الاعراف
37
تا
39
۔ ابراہیم
21
۔
22
۔ المومنون
101
۔ العنکبوت
12
۔
13
۔
25
۔ لقمٰن
33
۔ الاحزاب
67
۔
68
۔ سبا
31
تا
33
۔ فاطر
18
۔ الصّٰفّٰت
27
تا
33
۔ صٓ
59
تا
61
۔ حٰم السجدہ
29
۔ الذخرف
67
۔ الدخان
41
۔ المعارج
10
تا
14
۔ عبس
34
تا
37
۔ سورة التَّغَابُن
21
اللہ پر ایمان لانے سے مراد محض یہ مان لینا نہیں ہے کہ اللہ موجود ہے، بلکہ اس طریقے سے ایمان لانا مراد ہے جس طرح اللہ نے خود اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے بتایا ہے۔ اس ایمان میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب آپ سے آپ شامل ہے۔ اسی طرح نیک عمل سے مراد بھی ہر وہ عمل نہیں ہے جسے آدمی نے خود نیکی سمجھ کر یا انسانوں کے کسی خود ساختہ معیار اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کرلیا ہو، بلکہ اس سے مراد وہ عمل صلح ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق ہو۔ لہٰذا کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اور کتاب کے واسطے کے بغیر اللہ کو ماننے اور نیک عمل کرنے کے وہ نتائج ہیں جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ قرآن مجید کا جو شخص بھی سوچ سمجھ کر مطالعہ کرے گا اس سے یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ قرآن کی رو سے اس طرح کے کسی ایمان کا نام ایمان باللہ اور کسی عمل کا نام عمل صالح سرے سے ہے ہی نہیں۔
Top