Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور جب ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا ؟
آیت نمبر : 80 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر۔ 1 قولہ تعالیٰ : آیت : ولوطا اذ قال لقومہ امام فراء نے کہا ہے : لوط ان کے اس قول سے مشتق ہے : ھذا الیط بقلبی، ای الصق یعنی یہ میرے دل کے ساتھ چمٹ گیا۔ نحاس نے کہا ہے : زجاج نے کہا ہے : بعض نحویوں یعنی فراء نے گمان کیا ہے کہ یہ جائز ہے کہ لوط لطت الحوض سے مشتق ہو اور یہ تب کہا جاتا ہے جب تو حوض کو مٹی کے ساتھ لیپ کرے۔ فرمایا : یہ غلط ہے کیونکہ عجمی اسماء مشتق نہیں ہوتے جیسے اسحاق وغیرہ، پس یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ سحق بمعنی بعد سے ہے۔ لوط کا لفظ خفیف ہونے کی وجہ سے منصرف ہے، کیونکہ اس کے حروف تین ہیں اور درمیان والا حرف ساکن ہے۔ نقاش نے کہا ہے : لوط عجمی اسماء میں سے ہے عربی میں سے نہیں ہے۔ اور رہے اس سے لطت الحوض اور ھذا ایط بقلبی تو یہ صحیح ہے، لیکن اس کے باوجود اسم عجمی ہے جیسا کہ ابراہیم اور اسحاق وغیرہ۔ سیبویہ نے کہا ہے : نوح اور لوط عجمی اسماء ہیں، مگر خفیف ہونے کی وجہ سے منصرف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امت کی طرف بھیجا جس کا نام سودم تھا۔ اور آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی کے بیٹے تھے۔ اور اس کے آخر میں نصب یا تو سابقہ ارسلنا کی وجہ سے ہے اور یہ اس پر معطوف ہوگا۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ منصوب ہو اور اس سے پہلے اذکر فعل محذوف ہو۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : اتا تون الفاحشۃ اس میں فاحشہ سے مراد مذکروں کے ساتھ فعل بد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا زکر فاحشہ کے لفظ کے ساتھ کیا ہے تاکہ وہ یہ بیان کرے کی یہ زنا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ (الاسرائ : 32) (تم زنا کے قریب نہ جاؤ بلاشبہ یہ بےحیائی ہے) علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے جو اس پر واجب ہوگا جس نے اس فعل بد کا ارتکاب کیا اس کے بعد کہ اس کے حرام ہونے پر تمام کا اجماع ہے۔ پس امام مالک (رح) نے فرمایا : اسے رجم (سنگسار) کیا جائے گا (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786) چاہے محصن ہو یا غیر محصن (غیرشادی شدہ) ۔ اور اسی طرح اسے بھی رجم کیا جائے گا جس کے ساتھ یہ فعل کیا گیا بشرطیکہ وہ بالغ ہو۔ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے : اسے رجم کیا جائے گا اگر وہ محصن ہو اور اگر غیر محصن ہو تو اسے قید کیا جائے گا اور تادیبی سزا دی جائے گی۔ یہی مذہب حضرات عطا، ابراہیم نخعی اور ابن مسیب وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : محصن اور غیر محصن دونوں کو تعزیر لگائی جائے گی (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786) ۔ اور یہ امام مالک (رح) سے بھی مروی ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : زنا پر قیاس کرتے ہوئے اسے حد زنا لگائی جائے گا (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786) ۔ امام مالک (رح) نے اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے : آیت : وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل (الحجر) ( اور ہم نے برسائے ان پر کھنگر کے پتھر) پس یہ ان کے لیے سزا اور ان کے فعل کا بدلہ ہے۔ اور اگر کہا جائے : اس میں دو وجہوں سے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، ایک تو یہ کہ قوم لوط کو دیگر تمام امتوں کی طرح کفر اور تکذیب پر سزد دی گئی اور یہ کہ ان کے صغیر اور بڑھ سب ہی اس میں داخل ہیں۔ پس یہ باب الحدود سے اس کے خارج ہونے پر دلیل ہے۔ تو کہا جائے گا : جہاں تک پہلی وجہ ہے تو وہ غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے معاصی کا ارتکاب کیا پس انکے بدلے اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑ لیا۔ ان معاصی میں سے یہ بھی ہے۔ اور رہی دوسری وجہ تو ان میں سے کچھ یہ فعل کرنے والے تھے اور ان میں سے کچھ راضی تھے، تو جمہور کے اس پر سکوت اختیار کرنے کی وجہ سے تمام کو سزا دی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اپنے بندوں کے بارے میں سنت ہے۔ اور فاعلین پر سزا کا امر مسلسل باقی رہے گا۔ واللہ اعلم ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی اور دارقطنی نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جسے تم قول لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دو “ (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257، حدیث نمبر 3869، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ یہ لفظ ابو داؤد اور ابن ماجہ کے ہیں۔ اور ترمذی میں ہے ” وہ دونوں محصن ہوں یا محصن نہ ہوں “ (جامع ترمذی، کتاب الحدود، جلد 1، صفحہ 176، حدیث نمبر 2550، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ابو داؤد اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایسے غیر شادی شدہ جو ان کے بارے روایت کیا ہے جو عمل لواطت کی حالت میں پایا جائے۔ آپ نے فرمایا : اسے رجم کیا جائے گا (سنن ابن داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257، ایضا، حدیث نمبر 3780، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو جلا دیا اس کا نام فجائہ تھا، اس نے قوم لوط کا عمل کیا تھا اور یہی رائے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی تھی، کیونکہ جب حضرت خالد بن ولید ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف اس کے بارے لکھا تو آپ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب کو جمع کیا اور اس بارے میں ان سے مشور طلب کیا۔ تو حضرت علی ؓ نے کہا : بلاشبہ یہ ایسا گناہ ہے جو سابقہ امتوں میں سے سوائے ایک امت کے کسی نے نہیں کیا اور اس کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے (بطور سزا معاملہ) کیا اس کے بارے تم جانتے ہو، میں یا رائے رکھتا ہوں کہ اسے آگ کے ساتھ جلا دیا جائے۔ تو اصحاب رسول اللہ ﷺ کی رائے اسی پر متفق ہوئی کہ اسے آگ کے ساتھ جلا دیا جائے۔ نتیجہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرف اسے آگ کے ساتھ جلا دینے کا حکم بھیجا تو انہوں نے اسے جلا دیا۔ پھر ایسے لوگوں کو ابن زبیرؓ نے اپنے زمانہ میں جلایا۔ پھر ہشام بن ولید نے انہیں جلانے کی سزا دی۔ پھر خالد قشیری نے عراق میں انہیں جلایا۔ روایت ہے کہ حضرت ابن زبیر ؓ کے زمانہ میں سات افراد لواطت کے جرم میں پکڑے گئے۔ تو آپ نے ان کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو آپ نے ان میں سے چار کو شادی شدہ پایا تو آپ نے ان کے بارے حکم صادر کیا پس انہیں حرم سے باہر نکال کر رجم کردیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے اور تین کو حد جاری کردی اور آپ کے پاس حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ تھے لیکن ان دونوں نے اس حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اور یہی موقف امام شافعی (رح) کا ہے۔ حضرت ابن عربی نے کہا ہے : وہ موقف جسے امام مالک (رح) نے اپنایا ہے وہ حق کے زیادہ قریب ہے اور وہ سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور اعتماد کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے۔ اور جہاں تک احناف کا قول ہے تو انہوں نے کہا : زنا کی سزا تو معلوم ہے، تو یہ گناہ جب اس کے سوا ہے تو پھر ضروری ہے کہ وہ اسکی حد میں اس کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اور وہ اس بارے میں اس حدیث کو ترجیح دیتے ہیں۔ من وضع حدا فی غیر حد فقد تعدی وظلم ( جس نے غیر حد کی جگہ حد لگائی تو اس نے زیادتی اور ظلم کیا) اور یہ بھی کہ اس نے ایسی فرج میں وطی کی ہے جس کے ساتھ نہ حلت کا تعلق ہے اور نہ احصان کا، نہ مہر واجب ہوتا ہے اور نہ نسب ثابت ہوتا ہے، پس اس کے ساتھ حد کا کوئی تعلق نہیں (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 787) ۔ مسئلہ نمبر۔ 3 اگر کسی نے چوپائے کے ساتھ بدکاری کی تو اس کے بارے کہا گیا ہے کہ نہ اس آدمی کو قتل کیا جائے گا اور نہ ہو چوپائے کو۔ اور یہ قول بھی ہے : دونوں کو مار ڈالا جائے گا۔ اسے ابن منذر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے بیان کیا ہے۔ اور اس باب میں ایک اور حدیث ہے جسے ابو داؤد اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس نے کسی جانور کے ساتھ بدکاری کی تو تم اسے قتل کردو اور اس کے ساتھ اس کے ساتھ اس چوپائے کو بھی قتل کردو “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، جلد 1، صفحہ 187) ۔ تو ہم نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا : اس جانور کی حالت ( اور حکم) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں اس کے بارے جو رائے رکھتا ہوں وہ کہہ دیا، مگر یہ مروہ ہے کہ جس جانور کے ساتھ یہ عمل کیا گیا ہے اس کا گوشت کھایا جائے (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود باب فیمن الی بھیمۃ، حدیث نمبر 3781، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ابن منذر نے کہا ہے : اگر یہ حدیث ثابت ہے تو پھر اس کے مطابق قول کرنا واجب ہے اور اگر ثابت نہیں تو پھر چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کثرت سے استغفار کرے جس نے اس طرح کا فعل کیا اور اگر حاکم اسے تعزیر لگائے تو یہ اچھا اور حسن ہے۔ واللہ اعلم اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوپائے کا قتل اس لیے ہے تاکہ وہ کسی بدشکل شے کو جنم نہ دے۔ پس اس کا قتل اس معنی کے لیے مصلحت ہوتا ہے اس کے باوجود کہ یہ سنت سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : وہ آدمی جس نے کسی چوپائے سے بدکاری کی اس پر حد نہیں ہے۔ ابو داؤد نے کہا ہے : اسی طرح حضرت عطا (رح) نے بھی کہا ہے۔ اور حکم نے کہا ہے : میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ اسے کوڑے لگائے جائیں، لیکن وہ حد کی مقدار کو نہ پہنچیں۔ اور حسن نے کہا ہے : وہ زانی کے قائم مقام ہی ہے (ایضا۔ حدیث نمبر 3782، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور زہری نے کہا ہے : اسے سو کوڑے مارے جائیں گے چاہے وہ محصن ہو یا محصن نہ ہو۔ امام مالک، ثوری، احمد رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب رائے نے کہا ہے : اسے تعزیر لگائی جائے گی۔ یہ حضرت عطاء نخعی اور حکم (رح) سے مروی ہے۔ امام شافعی (رح) سے ایک روایت اس سے مختلف ہے۔ اور یہ اس باب میں آپ کے مذہب کے زیادہ مشابہ ہے۔ اور جابر بن زید نے کہا ہے : اس پر حد قائم کی جائے گی، مگر چوپایہ اس کا ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ما سبقکم بھا من احد من العلمین اس میں من استغراق جنس کے لیے ہے، یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم سے پہلے کسی امت میں کوئی لواطت کرنے والا نہ تھا اور ملحد گمان کرتے ہیں کہ وہ ان سے پہلے بھی تھے۔ لیکن سچ وہی ہے جو قرآن کریم میں آیا ہے۔ اور نقاش نے بیان کیا ہے کہ ابلیس ان کے عمل کی اصل تھا اس طرح کہ اس نے انہیں اپنی طرف بلایا اللہ اس پر لعنت کرے۔ پس وہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے نکاح کردیتا تھا۔ حسن نے کہا ہے : وہ یہ عمل غرباء ( اجنبیوں) سے کرتے تھے (تفسیر بصری، جلد 3، صفحہ 103) ، آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ابن ماجہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ جس کے بارے میں اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف رکھتا ہوں وہ قوم لوط کا عمل ہے “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، جلد 1 صفحہ 187۔ ایضا، حدیث نمبر 2552، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور حضرت محمد بن سیرین نے کہا ہے : جانوروں میں سے خنزیر اور گدھے کے سوا کوئی نہیں ہے جو قوم لوط کے عمل کی مثل عمل کرتا ہو۔
Top