وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اَنْزِلَ اِلَیْکَ (الآیۃ) یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے، جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زبانوں اور ملکوں میں نازل کیں، اس شرط کی بناء پر قرآنی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے، جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لئے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں، اور خود کچھ نظریات قائم کرکے انہی کو خدائی ہدایت قرار دیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہیں اسی چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردیں، ایسے سب لوگوں کو الگ کرکے قرآن اپنا چشمہ فیض صرف ان لوگوں کے لئے کھولتا ہے، جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں اور یہ بھی مانتے ہوں کہ یہ خدائی ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ ہی سے خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں اس لئے حق جہاں اور جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سرجھکا دیں۔
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ ا آنْزِلَ اِلَیْکَ : آیت کے الفاظ سے یہ مسئلہ صاف ہوجاتا ہے کہ تین چیزیں الگ الگ ہیں، (1) کلام کا نازل کرنے والا، (2) وہ جس پر کلام نازل کیا گیا ہو، یعنی رسول، (3) خود کلام، اس عبارت سے بروز، تمثل و حلول اور وحدۃ الوجود (اپنے عوامی مفہوم میں) ان مشرکانہ اور نیم مشرکانہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے نہ کلام متمثل ہوا ہے اور نہ رسول (نعوذ باللہ) اللہ کے اوتار یعنی انسانی قالب میں خدا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عہد رسالت میں مومنین متقین دو طرح کے تھے، ایک وہ جو پہلے مشرک تھے، بعد میں مشرف باسلام ہوئے اور دوسرے وہ کہ جو پہلے اہل کتاب یہودی یا نصرانی تھے، بعد میں مسلمان ہوگئے اس سے پہلے اول طبقہ کا ذکر تھا، اور اس آیت میں دوسرے طبقے کا ذکر ہے اسی لئے اس آیت میں قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی بھی تصریح فرمائی گئی کہ یہ حضرات دوہرے ثواب کے مستحق ہیں سابقہ کتابوں پر عمل کرنے کا ثواب اور قرآن پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب، پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا آج بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ آج ان کتابوں پر صرف اجمالی ایمان اس طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں جو کچھ نازل فرمایا تھا، وہ سب حق ہے اور اس زمانہ کے لئے وہی واجب العمل تھا، مگر قرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ یہ پچھلی کتابیں اور شریعتیں سب منسوخ ہوگئیں اب عمل صرف قرآن پر ہوگا۔ (معارف)
ایک اہم نکتہ : آیت کے طرز بیان سے ایک اہم نکتہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ آخری نبی اور آپ کی وحی آخری وحی ہے، اس لئے کہ اگر قرآن کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لانے کا بھی ذکر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے قرآن نے جہاں آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی کتاب پر ایمان لانے کا ذکر کیا ہے، وہیں سابقہ کتابوں پر بھی ایمان لانے کا ذکر فرمایا ہے، مگر کسی آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی آنے والی ہے، جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
وَبِالْآخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ، اَلْآخِرۃُ یہ اَلْآخِر کی تانیث ہے اور آخر اول کی نقیض ہے اور دار کی صفت ہے جیسا کہ اللہ کے قول : تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ میں ہے قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ چھٹی اور آخری شرط ہے آخرۃ ایک انقلابی عقیدہ اور ایک جامع لفظ ہے، جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں :
(1) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
(2) یہ کہ دنیا کا موجود نظام ابدی نہیں بلکہ ایک وقت پر جسے صرف خدا ہی جانتا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔
(3) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتداء آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کریگا اور سب کو جمع کرکے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دے گا۔
(4) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ کامیاب قرار دئیے جائیں گے اور جنت میں جائیں گے اور جو لوگ بدقرار دئیے جائیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔
(5) یہ کہ کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار موجود زندگی کی خوشحالی اور بدحالی نہیں ہے بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے اور ناکام وہ ہے، جو اس فیصلے میں ناکام ٹھہرے۔
عقائد کے اس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لئے قرآن نے تجویز کیا ہے۔
ایمان بالآخرت اگرچہ ایمان بالغیب میں داخل ہے مگر اس کو دوبارہ صراحۃ اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزاء ایمانی میں اس حیثیت سے سب سے زیادہ اہم جزء ہے، کہ مقتضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے۔
اور اسلامی عقائد میں وہ وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق و اعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں تمام اقوام عالم کے مقابلہ میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید و رسالت کی طرف تمام انبیاء (علیہم السلام) اور تمام شرائع میں مشترک اور متحقق چلا آتا ہے۔
وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے پیش نظر صرف دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و عشرت ہے اور دنیا ہی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں، آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب و کتاب کا کوئی تصور ان کے یہاں نہیں ہے اگر ایسے لوگ جھوٹ اور سچ اور حلال اور حرام کی تفریق کو اپنی عیش و عشرت میں خلل انداز ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے باز رکھنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
حکومت کے تعزیزی قوانین قطعاً انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں، عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہو ہی جاتے ہیں، کوئی شریف انسان اگر تعزیزی سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک کو بھی دے تو اس حد تک کہ اس کو حکومت کی دار و گیر کا خطرہ ہو، خلوتوں اور راز دار انہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں انہیں کون مجبور کرسکتا ہے کہ : اپنی عیش و عشرت کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں ؟
ہاں وہ صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا ہی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت، جلوت و خلوت میں یکساں ہوسکتی ہوسکتی ہے وہ یقین رکھتا ہے، کہ مکان کے بند دروازوں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے اور کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے۔