Mufradat-ul-Quran - Al-Haaqqa : 12
لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِیَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ
لِنَجْعَلَهَا : تاکہ ہم بنادیں اس کو لَكُمْ : تمہارے لیے تَذْكِرَةً : یاد دہانی وَّتَعِيَهَآ : اور یاد رکھیں اس کو اُذُنٌ : کان وَّاعِيَةٌ : یاد رکھنے والے
تاکہ اس کو تمہارے لئے یادگار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں
لِنَجْعَلَہَا لَكُمْ تَذْكِرَۃً وَّتَعِيَہَآ اُذُنٌ وَّاعِيَۃٌ۝ 12 جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا وعی الوَعْيُ : حفظ الحدیث ونحوه . يقال : وَعَيْتُهُ في نفسه . قال تعالی: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] . والإِيعَاءُ : حفظ الأمتعة في الوِعَاءِ. قال تعالی: وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] قال الشاعر : وقال تعالی: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] ( و ع ی ) الوعی ( ض ) کے معنی ( عموما ) بات وغیر کو یاد کرلینا کے ہوتے ہیں جیسے وعیتہ فی نفسی میں نے اسے یاد کرلیا قرآن میں ہے : ۔ لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] تاکہ اس کو تمہارے لئے یاد گار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ الایعاء ( افعال ) کے معنی سازو و سامان کو وعاء ظرف میں محفوظ کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] مال جمع کیا اور بند رکھا الوعاء کے معنی بوری یا تھیلا کے ہیں جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی جائیں جمع اوعیۃ آتی ہے قرآن میں ہے : فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] پھر یوسف نے ا پنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شرو ع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا ۔ أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔
Top