Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 6
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۙ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ الْحَقُّ : وہی برحق وَاَنَّهٗ : اور یہ کہ وہ يُحْيِ : زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردوں وَاَنَّهٗ : اور یہ کہ وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ وَاَنَّـہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّـہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰ تِیَـۃٌ لاَّرَیْبَ فِیْھَا لا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۔ (الحج : 6، 7) ( یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بیشک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں، اور اللہ ان سب کو ایک دن زندہ کرکے اٹھائے گا، جو قبروں میں ہیں۔ ) خلاصہ بحث گزشتہ آیات میں جو کچھ بیان ہوا ہے پیش نظر آیت کریمہ میں ان کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے۔ بیان کردہ حقیقتوں کی تعداد پانچ ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 1 اللہ ہی حق ہے۔ 2 وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ 3 وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 4 قیامت یقینا آنے والی ہے۔ 5 اللہ تعالیٰ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا جو قیامت کے بپا ہونے تک مرچکے ہوں گے۔ گزشتہ آیت کریمہ میں ان پانچوں باتوں کے اثبات کے لیے نہایت زوردار دلائل دیئے گئے ہیں۔ ہم نے اگرچہ اس آیت کے مفہوم کی وضاحت میں ان دلائل کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان پانچ باتوں میں سے ایک ایک کا تذکرہ کرکے جس طرح سے سید ابوالاعلیٰ مودودی ( رح) نے وضاحت کی ہے وہ اس قابل ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے۔ چناچہ ہم اس وضاحت کو نقل کررہے ہیں۔ اللہ ہی حق ہے پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کارفرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہورہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بےعلم و بےارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انھیں نظر آئے گا کہ ایک ایک فردِ انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کررہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ جاری ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضہ انثیٰ سے مل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر یہ کس حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بیشمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضہ انثیٰ سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے (Egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جاسکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بیشمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے یا گوشت کی بوٹی یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کردینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمول کے انسان کی صورت وہ ہئیت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیرمعمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح وسالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گونگا یا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کس کو بدصورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کس کو کو دن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہورہا ہے، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثرانداز نہیں ہوسکتی بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے حالانکہ انسانی آبادیوں میں قسمت کے کم از کم 90 فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہوجاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں، قوموں کے بلکہ پوری نوع انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہوجانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے اور کس کو قیامت کے بوریئے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کررہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ” حق “ ہے اور صرف اللہ ہی ” حق “ ہے تو بیشک وہ عقل کا اندھا ہے۔ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ “ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انھیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذائوں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہَوائیں اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں مگر انہی مردہ، بےجان مادوں کو جمع کرکے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنادیا گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردوپیش کی زمین پر نظر ڈالیے، بیشمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہَوائوں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا اور بیشمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہوئی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گردوپیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی اور ہر بےجان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انھیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اللہ بس وہی کچھ کرسکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا ؟ اللہ تو خیر بہت بلندو برتر ہستی ہے انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے۔ ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتادیا کہ انسان کے ” امکانات “ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے لیے اس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے اس کے سوا وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، اللہ کی قدرت بہرحال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہوسکتی۔ قیامت آکر رہے گی چوتھی اور پانچویں بات یعنی یہ کہ ” قیامت کی گھڑی آکر رہے گی “ اور یہ کہ ” اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا جو مرچکے ہیں “ ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کرسکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کرسکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کرکے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائیداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے۔ اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظرانداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیرارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے کیا باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہوگا ؟ کیا مانا جاسکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کرکے وہ بھول گیا ہے۔ اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی بازپرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہوگی اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعیداز عقل ہے۔
Top