Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 6
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۙ
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّ
: اس لیے کہ
اللّٰهَ
: اللہ
هُوَ الْحَقُّ
: وہی برحق
وَاَنَّهٗ
: اور یہ کہ وہ
يُحْيِ
: زندہ کرتا ہے
الْمَوْتٰى
: مردوں
وَاَنَّهٗ
: اور یہ کہ وہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے
قَدِيْرٌ
: قدرت رکھنے والا
یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَالْحَقُّ وَاَنَّـہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّـہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ۔ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰ تِیَـۃٌ لاَّرَیْبَ فِیْھَا لا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۔ (الحج : 6، 7) ( یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگارِ حقیقی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بیشک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں، اور اللہ ان سب کو ایک دن زندہ کرکے اٹھائے گا، جو قبروں میں ہیں۔ ) خلاصہ بحث گزشتہ آیات میں جو کچھ بیان ہوا ہے پیش نظر آیت کریمہ میں ان کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے۔ بیان کردہ حقیقتوں کی تعداد پانچ ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 1 اللہ ہی حق ہے۔ 2 وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ 3 وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 4 قیامت یقینا آنے والی ہے۔ 5 اللہ تعالیٰ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا جو قیامت کے بپا ہونے تک مرچکے ہوں گے۔ گزشتہ آیت کریمہ میں ان پانچوں باتوں کے اثبات کے لیے نہایت زوردار دلائل دیئے گئے ہیں۔ ہم نے اگرچہ اس آیت کے مفہوم کی وضاحت میں ان دلائل کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان پانچ باتوں میں سے ایک ایک کا تذکرہ کرکے جس طرح سے سید ابوالاعلیٰ مودودی ( رح) نے وضاحت کی ہے وہ اس قابل ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے۔ چناچہ ہم اس وضاحت کو نقل کررہے ہیں۔ اللہ ہی حق ہے پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کارفرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہورہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بےعلم و بےارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انھیں نظر آئے گا کہ ایک ایک فردِ انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کررہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ جاری ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضہ انثیٰ سے مل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر یہ کس حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بیشمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضہ انثیٰ سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے (Egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جاسکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بیشمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے یا گوشت کی بوٹی یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کردینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمول کے انسان کی صورت وہ ہئیت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیرمعمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح وسالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گونگا یا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کس کو بدصورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کس کو کو دن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہورہا ہے، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثرانداز نہیں ہوسکتی بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے حالانکہ انسانی آبادیوں میں قسمت کے کم از کم 90 فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہوجاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں، قوموں کے بلکہ پوری نوع انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہوجانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے اور کس کو قیامت کے بوریئے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کررہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ” حق “ ہے اور صرف اللہ ہی ” حق “ ہے تو بیشک وہ عقل کا اندھا ہے۔ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ “ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انھیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذائوں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہَوائیں اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں مگر انہی مردہ، بےجان مادوں کو جمع کرکے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنادیا گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردوپیش کی زمین پر نظر ڈالیے، بیشمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہَوائوں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا اور بیشمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہوئی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گردوپیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی اور ہر بےجان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انھیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اللہ بس وہی کچھ کرسکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا ؟ اللہ تو خیر بہت بلندو برتر ہستی ہے انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے۔ ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتادیا کہ انسان کے ” امکانات “ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے لیے اس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے اس کے سوا وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، اللہ کی قدرت بہرحال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہوسکتی۔ قیامت آکر رہے گی چوتھی اور پانچویں بات یعنی یہ کہ ” قیامت کی گھڑی آکر رہے گی “ اور یہ کہ ” اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا جو مرچکے ہیں “ ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کرسکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کرسکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کرکے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائیداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے۔ اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظرانداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیرارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے کیا باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہوگا ؟ کیا مانا جاسکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کرکے وہ بھول گیا ہے۔ اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی بازپرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہوگی اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعیداز عقل ہے۔
Top