Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 157
وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر قُتِلْتُمْ : تم مارے جاؤ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوْ مُتُّمْ : یا تم مرجاؤ لَمَغْفِرَةٌ : یقیناً بخشش مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَحْمَةٌ : اور رحمت خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے یا مرگئے تو اللہ کی طرف سے ملنے والی مغفرت اور رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں
وَلَئِنْ قُتِلْـتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْمُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۔ وَلَئِنْ مُّتُّمْ اَوْقُتِلْـتُمْ لَاِالَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے یا مرگئے تو اللہ کی طرف سے ملنے والی مغفرت اور رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔ اور اگر تم مرگئے یا قتل ہوگئے ہرحال میں اللہ ہی کے پاس اکٹھے کیے جاؤ گے) (157 تا 158) ایک نوید جانفزا اس آیت کریمہ میں مسلمانوں سے خطاب فرماکر ایک نہایت دلنواز بات فرمائی گئی ہے کہ ان کافروں اور منافقوں کو تو چھوڑو زندگی اور موت کے بارے میں ان کے تصورات دنیا میں بھی ان کے لیے عذاب کا باعث ہیں اور آخرت میں تو سرتاپا عذاب ہوں گے۔ لیکن مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کردئیے جاؤ یا اللہ ہی کے راستے پر چلتے ہوئے کبھی موت کا شکار ہوجاؤ تو دوسرے لوگوں کے لیے تو یہ دونوں باتیں غم واندوہ کا باعث ہیں لیکن تمہارے لیے اس میں ایک نوید جانفزا مخفی ہے۔ وہ یہ کہ تمہیں اللہ کے ہاں جاکر سب سے پہلی چیز جس کی خوشی سے تم دوچار کیے جاؤ گے وہ یہ ہوگی کہ تمہیں بتایا جائے گا کہ اللہ نے تمہاری سب غلطیاں، سب گناہ اور سب لغزشوں پر مغفرت کا قلم پھیر دیا ہے۔ تمہارا دامن ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں اللہ کی وہ رحمت میسر آئے گی جس سے بڑی نعمت کا ایک مومن تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ رحمت دراصل وہ انعام اور وہ نوازشات ہوں گی جو اللہ کی طرف سے اس مومن پر کی جائیں گی۔ مغفرت بجائے خود اتنا بڑا مقام ہے کہ جس کی اہمیت اگر دل میں اتر جائے تو پھر اس راستے میں سب کچھ جھونک دینا مومن کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور رحمت تو اللہ کی بخشش کے بعد ملنے والے وہ ثمرات ہیں جو بخشش کے بعد عطا کیے جائیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے : جب ایک مرد مومن اللہ کی طرف سے ملنے والے انعامات اور نعمتوں کو دیکھے گا تو وہ تمنا کرے گا کہ اگر یہ نعمتیں میری زندگی میں برداشت کی جانے والی تکلیفوں کا صلہ ہیں تو اے کاش ! میری کھال قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتی یعنی میں ناقابلِ برداشت اذیتوں سے دوچار کیا جاتا اور پھر مجھے یہاں ان اذیتوں کا بیش از بیش صلہ ملتا۔ آخرت کی نعمتوں اور دنیا کی نعمتوں کا درحقیقت آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ نادانی سے لوگ بعض دفعہ اخروی نعمتوں کی بجائے دنیوی نعمتوں کے پیچھے دوڑتے اور انھیں جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اگر انھیں ذرا سا بھی شعور ہوجائے کہ اخروی نعمتیں کیا اور کیسی ہیں تو وہ دنیوی نعمتوں کی بجائے اخروی نعمتوں کے حصول میں لگ جائیں۔ صحابہ کی زندگی میں یہی روح کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ وہ چونکہ آخرت کے یقین سے بہرور تھے اس لیے بعض دفعہ دنیا میں اس کی خوشبو سونگھتے یا لذت یاب ہوتے تھے۔ حضرت نضربن انس ( رض) نے جنگ احد میں فرمایا تھا کہ میں تو احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔ چناچہ اسی خوشبو کی تلاش میں دیوانہ وار دشمن کی فوج میں جاگھ سے اور اسی (80) سے زیادہ زخم کھاکرشہید ہوئے۔ ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے جب معرکہ کارزار پوری طرح گرم تھا تو انھوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضور اگر میں شہید ہوجاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : جنت۔ کھجوریں حضور کے حوالے کیں۔ کہا : جب تک کھجوریں کھائوں گا بہت دیر ہوجائے گی اور اتنی دیر تک جنت کا انتظار بہت مشکل ہے۔ جنگ میں گھس گئے اور شہید ہوگئے۔ آپ نے خود ان کو لحد میں اتارا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) فرماتے تھے کہ وہ شخص شاید اسی وقت مسلمان ہوا تھا لیکن جب حضور نے اس کے جنتی ہونے کی خبر دی اور خود بچشم تر اس کو لحد میں اتارا تو مجھے اس سے رشک پیدا ہوا کہ کاش ! میں اس کی جگہ شہید ہواہوتا اور حضور مجھے اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارتے۔ یہاں انھیں باتوں کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم دنیا کے خزف ریزے جمع کرکے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہو لیکن تمہیں کیا معلوم کہ خوش قسمتی تو آگے ہے۔ دوسری آیت میں ایک اور بات ارشاد فرمائی کہ جو مومن بھی اللہ کے راستے میں مارا جاتا ہے یا شہید ہوتا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کسی اور جگہ نہیں اللہ ہی کے پاس پہنچتا ہے۔ اگر وصل محبوب جنت سے بھی بڑی نعمت ہے تو یہ نعمت بھی اللہ ہی کے راستے میں مرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ دنیا میں عشاق وصل محبوب کی تمنا میں عمریں گزار دیتے ہیں لیکن جنھیں یہ خوشخبری سنادی جائے کہ وصل محبوب اتنا ہی دور ہے جتنا زندگی سے موت کا فاصلہ تو اندازہ فرمائیے ان کے لیے جینا کس قدر مشکل ہوجائے گا۔ عام وصل کے لیے بےتابی دیکھنا ہو تو غالب کے اس شعر میں دیکھئے ؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا کچھ اور جیتے ہوتے یہی انتظار ہوتا اس معمولی وصال کے لیے اگر عمر بھر انتظار کیا جاسکتا ہے تو اللہ کے وصال کے لیے ایک مومن میں کیا بےچینی ہونی چاہیے اس کا سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں۔ سید احمد شہید کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی کو، جبکہ لڑائی چھڑ چکی تھی، تھوڑا سا دودھ اور کچھ چاول ملے۔ اس نے ایک برتن میں ڈال کر چولہے پر پکنے کے لیے رکھے اور ایک لکڑی لے کر اسے ہلانے لگا۔ میدانِ جنگ کی طرف دیکھا تو گولیاں برس رہی تھیں۔ سید صاحب پہاڑ سے نیچے اتر چکے تھے۔ اچانک اس نے کھیر کے برتن پر زور سے چھڑی ماری اور اسے زمین پر گراکر کہنے لگا کہ ادھر دوسرے پہاڑ پر حوریں کھڑی ہمارا انتظار کر ہی ہیں میں کب تک اس کھیر کے پکنے کا انتظار کروں چناچہ دیوانہ وار نیچے اترا اور شہید ہوگیا۔ ٹھیک کہا ماہر القادری مرحوم نے : درود اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں بڑھا دیتے ہیں اک ٹکڑا شجاعت کے فسانے میں
Top