Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 157
وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر قُتِلْتُمْ : تم مارے جاؤ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوْ مُتُّمْ : یا تم مرجاؤ لَمَغْفِرَةٌ : یقیناً بخشش مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَحْمَةٌ : اور رحمت خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
اور اگر تم اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے یا اپنی موت مر گئے تو اللہ کی طرف سے جو رحمت و بخشش تمہارے حصے میں آئے گی یقینا وہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن کی پونجی لوگ جمع کیا کرتے ہیں
طبعی موت مرنا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنا ہو سکتا ہے : 290 : اس آیت نمبر 156 اور آیت 157 کا مضمون ملتا جلتا ہے دونوں آیات میں مُتُّمْ اور قُتِلْتُمْ کے الفاظ بھی موجود ہیں اور دونوں کا مضمون بھی مشترک ہے تاہم ایک باریک فرق نظر آتا ہے اس آیت زیرنظر میں یعنی آیت نمبر 156 میں فرمایا کہ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جاؤں یا طبعی موت مر جاؤ یعنی اس جگہ مر جانے سے مراد بھی اللہ کی راہ میں ہی مر جانا ہے کیونکہ اللہ کی راہ میں کام کرتا ہوا انسان قتل بھی ہو سکتا ہے اور طبعی موت بھی مر سکتا ہے۔ بلاشبہ صحابہ کرام ؓ میدان کارزار میں بھی قتل ہوئے لیکن کثیر تعداد ان صحابہ کرام ؓ کی تھی جو طبعی موت کی صورت میں اس جہان سے رخصت ہوء لیکن ان سب کا انتقال یقینا راہ الٰہی ہی میں تھا۔ اگرچہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا ایک عظمت کا مقام ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ منافق اس سے زیادہ تر ڈرتے تھے اور کمزور دل لوگوں کو بھی قتل ہونے ہی سے زیادہ خوف ہوتا ہے اس لیے اس آیت میں قُتِلْتُمْ کے الفاظ پہلے لائے گئے اور فرمایا کہ اللہ کی راہ میں کام کرتے ہوئے قتل ہوجاؤ یا مر جاؤ تو سب سے زیادہ یہی ہے کہ دنیا کا مال و دولت جمع کرنے میں کمی رہ جائے گی اس لیے کہ تم دنیا کے کاموں پر آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے اللہ کی راہ میں کام کرنا پسند کیا اور ظاہر ہے کہ ان اوقات میں تم دنیا کا مال زیادہ جمع نہ کرسکے اور یہ مال و دولت جس کو انسان جمع کرتا رہتا ہے آخرت کے مقابلہ میں کوئی چیز بھی ہے ؟ یعنی کچھ بھی نہیں اس سے بہت بڑھ کر تو اللہ کی مغفرت اور رحمت ہے جس کو اللہ کی راہ میں کام کرنے والا پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ کی نسبت کفار کی طرف کی۔ کیونکہ مال و دولت جمع کرنے پر گرا رہنا دنیا پرست لوگوں ہی کا کام ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کیونکہ آخرت پر ان کا ایمان نہیں ہوتا اور اس کے مقابلہ میں اللہ کی راہ میں کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کا آخرت پر پختہ یقین ہو اور وہ دنیاوی مال و دولت پر اخروی فوائد کی فوقیت کو تسلیم کرتا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک دنیادار مال و دولت اکٹھا کر کے جتنا خوش ہوتا ہے ایک اللہ کا دوست اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس سے بہت زیادہ خوشی حاصل کرتا ہے۔ ایک کو مال جمع کرنے سے محبت ہے اور دوسرے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے۔
Top