Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 157
وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر قُتِلْتُمْ : تم مارے جاؤ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوْ مُتُّمْ : یا تم مرجاؤ لَمَغْفِرَةٌ : یقیناً بخشش مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَحْمَةٌ : اور رحمت خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مر جاؤ تو اللہ کی جو رحمت اور بخشش تمہارے حصہ میں آئے گی وہ اُن ساری چیزوں سے زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں
[وَلَئِنْ : اور اگر ] [قُتِلْتُمْ : تم لوگ قتل کیے جاتے ہو ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [اَوْ مُــتُّمْ : یا مرتے ہو ] [لَـمَغْفِرَۃٌ : تویقینا مغفرت ] [مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ] [وَرَحْمَۃٌ : اور رحمت ] [خَیْـرٌ : بہتر ہے ] [مِّمَّا : اس سے جو ] [یَجْمَعُوْنَ : یہ لوگ جمع کرتے ہیں ] ل ی ن لَانَ (ض) لَـیْنًا : نرم ہونا ‘ آیت زیر مطالعہ۔ لَــیِّنٌ (صفت) : نرم ‘ ملائم۔ { فَقُوْلَا لَــہٗ قَوْلًا لَّــیِّــنًا } (طٰہٰ :44) ” تو تم دونوں کہنا اس سے نرم بات۔ “ لِیْنَـۃٌ (اسم ذات) : کھجور کا درخت (عجوہ کھجور کے علاوہ) ۔ { مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَـآئِمَۃً } (الحشر :5) ” جو تم لوگوں نے کاٹا کسی کھجور کے درخت میں سے یا چھوڑا اس کو کھڑا ہوا۔ “ اَلاَنَ (افعال) اِلَانَۃً : نرم کرنا۔ { وَاَلَـنَّا لَــہُ الْحَدِیْدَ } (سبا :10) ” اور ہم نے نرم کیا اس کے لیے لوہے کو۔ “ ظ ظ فَظَّ (س) فِظَاظًا : بدمزاج ہونا۔ فَظٌّ : بدمزاج ‘ آیت زیر مطالعہ۔ غ ل ظ غَلَظَ (ن) وَ غَلُظَ (ک) غِلْظَۃً : موٹا ہونا ‘ گاڑھا ہونا ‘ سخت ہونا۔ غِلْظَۃٌ (اسم ذات بھی ہے) : موٹا پن ‘ سختی ۔ { وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً } (التوبۃ :123) ” اور چاہیے کہ وہ لوگ پائیں تم لوگوں میں سختی۔ “ اُغْلُظْ : تو سخت ہو۔ { یٰٓـــاَیـُّـھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْـکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } (التوبۃ :73) ” اے نبی ﷺ ‘ آپ ﷺ جہاد کریں کافروں اور منافقوں سے اور آپ ﷺ سخت ہوں ان پر۔ “ غَلِیْظٌ ج غِلَاظٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) : گاڑھا ‘ سخت۔ { عَلَیْھَا مَلٰٓـئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ} (التحریم :6) ” اس پر فرشتے ہیں انتہائی سخت۔ “ اِسْتَغْلَظَ (استفعال) اِسْتِغْلَاظًا : موٹا پن یا سختی چاہنا ‘ یعنی موٹا ہونا ‘ سخت ہونا۔ { فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ } (الفتح :29) ” پھر وہ یعنی کھیتی موٹی ہوئی پھر وہ جمی اپنی پنڈلی پر۔ “ ترکیب :” لَمَغْفِرَۃٌ“ اور ” رَحْمَۃٌ“ مبتدأ مؤخر نکرہ ہیں۔ ” خَیْرٌ“ ان کی خبر ہے۔ اور یہ جملہ ” لَئِنْ “ کا جوابِ شرط ہے۔ ” لاَِالٰی “ میں ایک الف زیادہ لکھنا قرآن مجید کا مخصوص املا ہے۔ ” کُنْتَ “ کی خبر اوّل ” فَظًّا “ ہے اور ” غَلِیْظَ الْقَلْبِ “ خبر ثانی ہے ‘ اس لیے ” غَلِیْظَ “ منصوب ہے۔ ” لَانْفَضُّوْا “ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ نوٹ : رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ اہم معاملات میں آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کی رائے لیتے تھے۔ یہاں آیت 159 میں آپ ﷺ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت ان لوگوں کی رائے بھی معلوم کرلیا کریں جو بظاہر مسلمان لیکن حقیقتاً منافق تھے۔ اس کے علاوہ سورة الشوریٰ کی آیت 38 میں اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ ان کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ ان دومقامات سے اسلامی نظام میں مشاورت کے متعلق جو راہنمائی حاصل ہوتی ہے ‘ اس پر معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع (رح) نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے : (1) قرآن و حدیث کے واضح احکام میں مشورہ کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً زکوٰۃ دے یا نہیں ‘ حج کرنے جائے یا نہیں ‘ وغیرہ۔ البتہ اس میں مشورہ کیا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے ‘ یا حج کے لیے بحری جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے ‘ کیونکہ یہ شرعاً اختیاری امور ہیں۔ (2) اختیاری امور میں مشورہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔ (3) ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے۔ اسے چاہیے کہ وہی رائے دے جو اس کام میں وہ خود اپنے لیے تجویز کرتا ہے۔ اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔ (4) اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے ‘ خاندانی وراثت سے نہیں۔ اسلام نے حکومت میں وراثت کا اصول ختم کر کے امیر مملکت مقرر یا معزول کرنا جمہور کے اختیار میں دے دیا۔ (5) منتخب امیر مطلق العنان نہیں ہے بلکہ مشورہ لینے کا پابند ہے۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔ (6) قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ ؓ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے ‘ خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے ۔ { فَاِذَا عَزَمْتَ } میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے ‘ عَزَمْتُمْ جمع کا صیغہ نہیں آیا۔ اس اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ لینے کے بعد عزم اور نفاذ صرف امیر کا معتبر ہے۔ (7) سب تدبیریں کرنے کے بعد نتیجے کے لیے بھروسہ اور تکیہ صرف اللہ پر کرو۔
Top