Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 157
وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر قُتِلْتُمْ : تم مارے جاؤ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اَوْ مُتُّمْ : یا تم مرجاؤ لَمَغْفِرَةٌ : یقیناً بخشش مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَحْمَةٌ : اور رحمت خَيْرٌ : بہتر مِّمَّا : اس سے جو يَجْمَعُوْنَ : وہ جمع کرتے ہیں
اور اگر تم مارے گئے اللہ کی راہ میں یا مرگئے تو بخشش اللہ کی اور مہربانی اس کی بہتر ہے اس چیز سے جو وہ جمع کرتے ہیں241
241 لَئِنْ قَتَلْتُمْ کی جزا محذوف ہے۔ یعنی فلا تحزنوا۔ اور مَغْفِرۃ ةٌالخ جزاء محذوف کی علت ہے اور یَجْمَعُوْنَ کی ضمیر اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کی طرف راجع ہے کفار اور منافقین چونکہ دنیا کے بندے تھے ان کی ساری دوڑ دھوپ بس صرف دنیوی فوائد کے لیے تھے اور ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کی عمریں بہت لمبی ہوں اور وہ دنیا میں رہ کر خوب مزے کریں۔ سفر میں مرنے والوں اور اللہ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کے بارے میں ان کا مذکورہ قول جہاں ان کے باطنی خیالات اور قلبی رجحانات کو طشت ازبام کرتا ہے وہاں اس سے یہ بھی ممکن تھا کہ کہیں مسلمانوں کے دلوں میں کم ہمتی یا جہاد سے جی چرانے کا وسوسہ پیدا ہوجائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب فرمائی اور اللہ کی راہ میں ان کو جو تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں ان کے بارے میں ان کی تسلی اور تشفی فرمادی۔ وفیہ ترغیب المؤمنین فی الجھاد۔ وتعزیۃ لھم وتسلیۃ فما اصابھم فی سبیل اللہ تعالیٰ اثر ابطال ما عسی ان یثبطھم عن اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ (روح ص 104 ج 4) یعنی اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارا جائے یا کسی اور دینی کام میں موت طبعی سے مرجائے تو غم کرنے کی ضرورت سے نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت ومغفرت ان نفسانی خطوط اور دنیوی منافع سے کہیں بہتر ہے جن کو حاصل کرنے میں یہ کفار اور منافقین دن رات مصروف ہیں۔
Top