Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ
: جب
قَالَتِ
: جب کہا
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
يٰمَرْيَمُ
: اے مریم
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُبَشِّرُكِ
: تجھے بشارت دیتا ہے
بِكَلِمَةٍ
: ایک کلمہ کی
مِّنْهُ
: اپنے
اسْمُهُ
: اس کا نام
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
وَجِيْهًا
: با آبرو
فِي
: میں
الدُّنْيَا
: دنیا
وَالْاٰخِرَةِ
: اور آخرت
وَمِنَ
: اور سے
الْمُقَرَّبِيْنَ
: مقرب (جمع)
اس وقت کو یاد کرو ! جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں وجاہت والا ہوگا اور اللہ کے مقربین میں سے ہوگا
اِذْقَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْـہُ صلے ق اسْمُہٗ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۔ لا وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَّمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ (اس وقت کو یاد کرو ! جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں وجاہت والا ہوگا اور اللہ کے مقربین میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے کلام کرے گا گہوارے میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ نیکو کاروں میں سے ہوگا) (45 تا 46) سورة آل عمران کا اصل موضوع نصاریٰ اور ان کے غلط عقائد ہیں۔ ان کے غلط عقائد کی بنیاد چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلط تصور پر ہے اس لیے اس آیت کریمہ میں ان کے اس غلط تصور اور پھر ان کے عقائد کی اصلاح کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کی آیات اسی کی تمہید ہیں۔ ان کے خاندان کو سلسلہ انبیاء میں شمار کروا کر ان کی اصل حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ پھر ان کی پیدائش کے واقعات کو حضرت مریم سے آغاز کیا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر جو غیر معمولی نوازشات ہوئی ہیں، ان کا آغاز ان کی والدہ ماجدہ سے ہی ہوگیا تھا اور پھر حضرت مریم کے کفیل اور مربی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا، قبولیت اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی غیر معمولی ولادت کو تفصیل سے بیان فرما کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے واقعات کو سمجھنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کی گئی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو نبی نہ ہوتے ہوئے بھی ملائکہ کے ذریعے پکارا اور انھیں بیٹے کی بشارت عطا فرمائی۔ اسی طرح حضرت مریم جو اللہ کی نبیہ نہ تھیں، لیکن غیر معمولی التفات کے طور پر فرشتوں نے اللہ کی جانب سے انھیں پکار کر ایک ایسی بشارت دی جس کی زمین ہموار کرنے کے لیے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو صاف صاف بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم تمہیں ایک بیٹے کی بشارت دیتے ہیں، جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ لیکن حضرت مریم کو بشارت دیتے ہوئے بیٹے کا نام نہیں لیا کیونکہ پروردگار سے بڑھ کر اور کسے معلوم ہوسکتا تھا کہ مریم ایک کنواری لڑکی ہے اور جو شرم و حیا کا پیکر ہے۔ جس نے شرم و حیا سے ہٹ کر کبھی کوئی بات کی نہ سنی۔ اس لیے نہایت اختصار بلکہ ابہام کے ساتھ بیٹا کا لفظ کہنے کے بجائے ایک کلمے کی بشارت دی۔ لیکن یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ کلمے سے مراد کوئی پہیلی نہیں اور نہ اللہ کی حمد و ثنا کا کوئی کلمہ ہے بلکہ اس سے مراد ایک بچہ ہے۔ فرمایا اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ یوں تو کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کے کلمہ ” کن “ کے بغیر پیدا ہوئی ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری معلومات اور تجربات کی حد تک عالم ناسوت کی ہر چیز کو سبب اور مسبب اور علت اور معلول کے رشتہ میں پرو دیا ہے۔ اس لیے جب بھی ہمارے سامنے کوئی وجود معرض وجود میں آتا ہے تو ہماری نگاہیں سبب اور علت کے حجاب میں اٹک کر رہ جاتی ہیں حالانکہ کائنات کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں قدرت نے پہلے مرحلہ میں کلمہ کن سے پیدا فرمایا۔ خود انسانوں کے جدامجد کسی سبب سے وجود میں نہیں آئے بلکہ ان کا ظہور اللہ کے کلمہ کن کا مرہونِ منت ہے۔ اس لیے شاید کَلِمَۃٌ کی تنوین کو تنکیر کے لیے لایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) ہی اس صفت کے حامل نہیں بلکہ اس شرف سے اور مخلوقات بھی مشرف ہوچکی ہیں۔ پھر انسانوں میں آپ کو مشخص اور ممتاز کرنے کے لیے آپ کے لقب، آپ کے نام اور آپ کی کنیت کا ذکر فرمایا۔ مسیح آپ کا لقب ہے اور لقب کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ اسے نام سے پہلے لاتے ہیں۔ عیسیٰ آپ کا اسم مبارک ہے اور ابن مریم آپ کی کنیت اور آپ کی وجہِ اختصاص ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ روایت رہی ہے کہ اگر نئے نبی کے آنے کے وقت، وقت کا نبی بقید حیات ہوتا تو وہ آنے والے نبی کے سر پر مقدس تیل مل کر اسے اپنا جانشین بناتا اور جب بنی اسرائیل کے یہاں بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا تو وقت کا نبی بادشاہِ وقت کے تقرر کے لیے اس کے سر پر تیل ملنے لگا۔ جس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا کہ یہ شخص مستقبل کا بادشاہ بھی ہے اور خدا کا برگزیدہ بھی۔ دوسرے پارے کے آخری دو رکوعوں میں ہم حضرت طالوت کا واقعہ پڑھ چکے ہیں۔ تورات نے ان کے بارے میں بتایا ہے کہ طالوت کو حضرت سموئل نے اس وقت کے بنی اسرائیل کا امیر اور بادشاہ مقرر کیا تھا اور وہ جب ان کے گھر کے سامنے سے گدھوں کی تلاش کے سلسلے میں جا رہا تھا تو اسے بلا کر امارت کی خوشخبری دی اور تیل کی کپی منگوا کر اس کے سر پر تیل ملا۔ اسی طرح چند سالوں کے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) کو بھی اسی طرح حضرت سموئل نے ممسوح کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں انجیلوں سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی اسی راویت کے مطابق حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے ان کو بپتسمہ دیا، لیکن تیل ملنے کا کوئی ذکر نہیں۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدائشی مسیح تھے۔ آنحضرت ﷺ نے معراج میں انھیں دیکھا تھا تو لوگوں کے سامنے ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ حضرت عیسیٰ جب سر جھکاتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سر سے تیل ٹپک رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے انھیں مسیح کہا گیا ہو اور شاید اسی لیے انجیل میں ان کے لیے ” خدا کا مسیح “ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں تک آپ کی کنیت کا تعلق ہے وہ تو ان کے لیے وجہِ اختصاص بھی ہے اور وجہِ امتیاز بھی اور یہی وہ چیز ہے جس نے انھیں باقی انبیاء کرام سے ممتاز کردیا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک تمام انبیاء کرام اور رسولانِ عظام بجز حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماں اور باپ سے پیدا ہوئے۔ سب کا باپ بھی تھا اور ماں بھی تھی۔ لیکن ایک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں جو صرف اپنی والدہ کی طرف منسوب کیے گئے۔ عرب میں خصوصاً اور دنیا میں عموماً مائوں کی طرف نسبت کو ہمیشہ ایک کمزوری سمجھا گیا۔ جب بھی کسی شخص کا انتساب ماں کی طرف کیا گیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کا نسب نامعلوم ہے۔ ” زیاد “ جو عرب کے مدبروں میں ایک قابل ذکر نام ہے۔ اسے اقتدار ضرور ملا لیکن وہ عزت نصیب نہ ہوسکی جو ایک خاندانی شخص کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک فاحشہ عورت کا بیٹا تھا اور اس کا باپ نامعلوم تھا۔ اس لیے ہمیشہ زیاد بن ابیہ کہہ کر یاد کیا گیا یا اس کی نسبت اس کی ماں کی طرف کی گئی۔ اللہ کے نبی جس طرح شکل و صورت کے اعتبار سے دنیا میں ممتاز ہوتے ہیں اسی طرح وہ خاندانی وجاہت لے کر بھی آتے ہیں۔ کوئی شخص انھیں کسی طرح کی گراوٹ کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اگر کوئی والد ہوتے تو یقینا انھیں والد کی طرف منسوب کیا جاتا لیکن قرآن کریم بار بار پوری تحدی اور اہتمام کے ساتھ انھیں ” عیسیٰ ابن مریم “ کے نام سے یاد کرتا ہے اور یہی نسبت ان کے لیے باعث افتخار بھی ہے کیونکہ الزام کی بات تو یہ ہے کہ کسی کا باپ تو ہو لیکن معلوم نہ ہو یا جائز نہ ہو۔ لیکن یہ بات کہ کسی کو بغیر باپ کے پیدا کیا جائے، یہ تو ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل ہے اور شاید اسی لیے آپ کے لیے فرمایا گیا : وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (آپ دنیا اور آخرت میں ذی وجاہت اور عزت والے ہوں گے) دنیا آپ کے خیالات سے تو اختلاف کرے گی، آپ پر ایمان لانے سے ہزار انکار کرے گی لیکن آپ کی عزت و حرمت کو کبھی چیلنج نہ کرسکے گی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بارہ سال کی عمر میں پہلی بار ہیکل میں تعلیم دی۔ لیکن اس کم سنی کے باوجود ان کی تعلیم کی حکمت و معرفت، کلام کی بلاغت و جزالت اور لب و لہجہ کی عظمت و جلالت کا عالم یہ تھا کہ فقیہ اور فریسی سردار کاہن اور ہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ وہ حیرانی کے عالم میں ایک ایک سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے جو اس شکوہ سے بات کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اس کو اختیار ملا ہوا ہے۔ یہود نے آپ کی دشمنی میں کیا کچھ نہیں کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ آپ کی زندگی میں کبھی آپ کے نسب پر طعن نہ کرسکے۔ آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تو تھے ہی لوگوں کے دلوں میں بھی آپ کی محبت اور عظمت کا عالم یہ تھا کہ یہودیوں کی بستیوں میں جب انھوں نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل چل مچ گئی، خلقت ان پر ٹوٹی پڑتی تھی۔ فقیہ اور فریسی سب پر ایک سراسیمگی کا عالم طاری تھا۔ وہ ان کو زچ کرنے اور عوام میں ان کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے ان سے طرح طرح کے سوالات کرتے، لیکن سیدنا مسیح دو دو لفظوں میں ان کو ایسا جواب دیتے کہ پھر ان کو زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوتی۔ حضرت مسیح کی انہی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے بارے میں جو خرافات مشہور ہوچکی ہیں اور جن میں سے بعض انجیلوں میں بھی مذکور ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ انتہائی وجیہہ آدمی تھے، اس لیے یہودیوں کا یہ کہنا کہ انھوں نے ان کو گالیاں دیں، ان کے منہ پر تھوکا، ان کے طمانچے مارے، یہ سراسر خانہ ساز باتیں ہیں۔ اللہ کے رسولوں کی عزت کی حفاظت پروردگار خود فرماتے ہیں۔ ان کی قوم کو ایک خاص حد تک ڈھیل دی جاتی ہے لیکن جب قوم حد سے بڑھنے کی جسارت کرتی ہے تو پھر ایسے نا ہنجاروں کا بیڑا غرق کردیا جاتا ہے۔ اللہ نے ان کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے اور بن باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہر طرح کی انگشت نمائی سے بچانے کے لیے جو انتظامات کیے ان میں سے ایک تو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری تھی۔ جنھوں نے اپنی بےپناہ شخصیت سے ان کے بارے میں ایک ایک غلط فہمی کا ازالہ کردیا اور دوسرا انتظام پروردگار نے یہ فرمایا کہ جیسے ہی حضرت مریم بیٹے کی پیدائش کے بعد انھیں لے کر اپنی قوم میں آئیں تو انھیں یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ ہارون کی بہن اور عمران کی بیٹی کنوار پن میں کسی بچے کو جنم دے سکتی ہے، چناچہ سورة مریم میں ان کی قوم کا قول دہرایا گیا ہے یٰٓـاُخْتَ ہَارُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ اِمْرَاَ سَوْئِ وَمَا کَانَتْ اُمُّـکِ بَغِیًّا (اے ہارون کی بہن ! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی) تو نے یہ کیا اندھیر کیا ؟ مریم جو شرم و حیا کا پیکر تھیں اس کے سوا کچھ نہ کرسکیں کہ آپ نے نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھ لو۔ قوم حیران کہ ہم بچے سے کیسے پوچھیں۔ بچے نے بولنا شروع کیا : قَالَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْـکِتَابُ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بولے بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور مجھے بابرکت بنایا ہے) پنگھوڑے اور گود میں سارے ہی بچے چند مہینے کے بعد ” ہوں ہاں “ کرنے لگتے ہیں۔ لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ عیسیٰ ایک ایسے بچے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے بتادیا گیا کہ وہ ایک دو دن کی عمر میں بھی اس طرح بولیں گے جس طرح ایک بڑی عمر کا باشعور نوجوان بولتا ہے بلکہ جس طرح ایک نبی اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے۔ مزید فرمایا کہ وہ کہولت اور بڑھاپے میں بھی بولیں گے۔ بڑھاپے میں بھی دنیا کے سارے لوگ بولتے ہیں۔ لیکن بڑھاپے میں ایک خاص وقت ایسا آتا ہے جب علم و دانش کا پیکر بھی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں گے تو ان پر اس طرح کا زوال نہیں آئے گا۔ وہ اس وقت بھی ایک پیغمبر کی حیثیت سے بولیں گے۔ یہاں شاید ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کیا جا رہا ہے کہ عیسائیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر تینتیس سال ہوئی۔ آپ بھرپور جوانی میں یہود و نصاریٰ کے کہنے کے مطابق سولی چڑھا دیئے گئے اور مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انھیں آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر بڑھاپے اور کہولت کی عمر نہیں آئی اور اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان پر بڑھاپا آئے گا اور وہ جوانوں کے لیے بھی باعث صد رشک ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ان کے بارے میں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرب قیامت میں وہ واپس تشریف لائیں گے اور دمشق کو فوجی کارروائیوں کے لیے مستقر بنائیں گے۔ اس وقت وہ تینتیس سال کی عمر میں ہوں گے، پھر وہ چالیس سال تک ایک عادلانہ حکومت قائم کریں گے۔ اس دوران دو دفعہ حج کے لیے جائیں گے۔ تقریباً چوہتر سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے بلاوا آئے گا تو وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں دفن کیے جائیں گے۔ آپ کے مدفن میں ایک قبر کی جگہ خالی ہے جہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دفن کیا جائے گا۔ اس طرح ان کا پاکیزہ بڑھاپا اپنی آخری عمر کو پہنچے گا۔ بالکل آخر آیت میں فرمایا وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ (وہ صالحین کے زمرے میں سے ہوں گے) اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) غیر معمولی کمالات کے حامل ہوں گے آپ بچپن میں علم و حکمت کی باتیں کریں گے۔ نبوت کا اعلان کریں گے۔ اپنے بابرکت ہونے کی خوشخبری دیں گے اور پھر زندگی میں بیشمار معجزات دکھائیں گے اور زندگی کے خاتمے کی کیفیت یہ ہوگی کہ جس عمر میں آدمی حواس گم کر بیٹھتا ہے اور بات کی ششتگی اور شائستگی ختم ہوجاتی ہے اور بالکل بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے اس عمر میں بھی ایسی باتیں کریں گے جس کے سامنے علم و دانش بھی سرنگوں ہوجائیں گے۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ خدا یا کوئی اوتار نہیں ہوں گے نہ انھیں دیوتا ہونے کا دعویٰ ہوگا بلکہ وہ اللہ کے نیک بندے ہوں گے اور انھیں میں سے اپنے شمار پر فخر کا اظہار کریں گے۔
Top