Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ : جب قَالَتِ : جب کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُبَشِّرُكِ : تجھے بشارت دیتا ہے بِكَلِمَةٍ : ایک کلمہ کی مِّنْهُ : اپنے اسْمُهُ : اس کا نام الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَجِيْهًا : با آبرو فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمِنَ : اور سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقرب (جمع)
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ بن مریم ہوگا (اور جو) دنیا اور آخرت میں باآبرو اور (خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا
یُبَسِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دی جا رہی ہے وہ بیٹا جس کو بن باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے کلمۃ اللہ کہا گیا ہے مریم اس وقت تک یہودی رسم و رواج کے لحاظ سے ناکت خدا تھیں (غیر شادی شدہ) البتہ آپ کی منگنی آپ کے کفوآل داؤد کے ایک نوجوان یوسف نامی لڑکے سے ہوئی تھی، جن کے یہاں لکڑی کا کام ہوتا تھا، انجیل کا بیان ہے۔ جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک شخص یوسف نامی سے ہوئی تھی اور اس کنواری کا نام مریم تھا۔ (لوقاء 28: 27: 1) یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب آپ کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے رکھنا ہوئے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حامل پائی گئی۔ (متیٰ 81: 1) وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، یہ فقرہ یہود کے رد میں ہے کہ تم جس کے حق میں ہر قسم کی توہین و افتراء روا رکھتے ہو وہ صاحب عزت و اکرام ہیں۔ یہود کی قدیم کتابوں میں کوئی دقیقہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تحقیر و توہین کا اٹھا نہیں رکھا گیا۔ یہ قرآن کی برکت و اعجاز ہے کہ اس کے نزول کے بعد سے رفتہ رفتہ اب یہود کے لہجہ کی تلخی نرمی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور تالمود کے الزامات دہراتے ہوئے یہود کو شرم آنے لگی ہے آخرت کا اعزاز تو خیر جب ہوگا، ہوگا مگر دنیا کا اعزاز اس سے ظاہر ہے کہ روئے زمین کے سو کروڑ سے زیادہ مسلمان آج بھی انہیں اللہ کا پیغمبر برحق مان رہے ہیں۔ ان کا نام ” (علیہ السلام) “ کے بغیر نہیں لیتے اور کروڑوں کی تعداد میں نصاریٰ ہیں جو انہیں رسول کے مرتبہ سے بھی بلند تر سمجھ رہے ہیں، یہ عقیدہ گو باطل وا حمقانہ ہے لیکن بہرحال آپ کی تعظیم و احترام کا ہی نتیجہ ہے۔
Top