Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 47
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ لِيْ : ہوگا میرے ہاں وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ : اور نہیں يَمْسَسْنِىْ : ہاتھ لگایا مجھے بَشَرٌ : کوئی مرد قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِذَا : جب قَضٰٓى : وہ ارادہ کرتا ہے اَمْرًا : کوئی کام فَاِنَّمَا : تو يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوجاتا ہے
فرشتوں کی خوشخبری سن کر حضرت مریم نے) کہا : اے میرے پروردگار ! میرے یہاں لڑکا کس طرح ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا ؟ اللہ نے فرمایا اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ جب وہ کسی عمل کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس کو کہتا ہے کہ ہوجا سو وہ ہوجاتا ہے
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَـکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ ط قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ ط اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَـقُوْلُ لَـہٗ کُنْ فَیَـکُوْنُ ۔ (فرشتوں کی خوشخبری سن کر حضرت مریم نے) کہا : اے میرے پروردگار ! میرے یہاں لڑکا کس طرح ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا ؟ اللہ نے فرمایا اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ جب وہ کسی عمل کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس کو کہتا ہے کہ ہوجا سو وہ ہوجاتا ہے) (47) یہ بعینہٖ ویسا ہی سوال ہے جیسا حضرت زکریا (علیہ السلام) نے کیا تھا کہ میں بوڑھا کھوسٹ ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ ہم دونوں اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تو ہم سے اولاد کیسے ہوگی ؟ یہی بات حضرت مریم نے کہی کہ میں ایک پاکباز لڑکی ہوں اور غیر شادی شدہ ہوں۔ تخلیق کا عمل تو لڑکی لڑکے کے اتصال سے ہوتا ہے۔ میں چونکہ ایسے ہر طرح کے تعلق سے بری اور پاک ہوں تو میرے یہاں لڑکا پیدا ہونے کا کیا سوال ؟ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا سوال بھی اللہ کی قدرت اور رحمت پر عدم اعتماد نہیں تھا۔ اسی طرح حضرت مریم بھی اللہ کی قدرت کے بارے میں بدگمان نہ تھیں بلکہ یہ نہایت حسین وبلیغ انداز سے طلب تصدیق ہے اور ایک ایسی بات کے بارے میں سوال ہے جو بظاہر ناممکن ہے۔ لیکن اس کا صدور اور وقوع سراسر اللہ کے فیصلے اور قدرت سے ہوگا۔ لیکن اس کی قدرت اپنے اظہار کی کوئی شکل تو رکھتی ہے اور وہ چونکہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی سختی کا معاملہ نہیں کرتی، اس لیے پیش آنے والے واقعات کی پہلے سے اس میں پیش بندی بھی ہوتی ہے۔ یہی وہ باتیں تھیں جو سوال بن کر زبان پر آگئیں۔ لیکن پروردگار نے کسی فلسفے یا علت کو بیان کیے بغیر شاہانہ انداز میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کا ظہور صرف اللہ کی قدرت کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بات کے بارے میں بشارت دیتے ہیں کہ وہ ہونے والی ہے تو پھر اس کے ہو کے رہنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اسے ویسے ہی تخلیق کا جامہ پہناتا ہے جیسے اس کی مشیت چاہتی ہے۔ البتہ اگلی آیت کریمہ میں یہ کرم ضرور فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کی جو علت یا جو مقاصد ہوسکتے تھے ان میں سے چند ایک کو بیان فرما دیا تاکہ حضرت مریم جو اتنی بڑی اور نازک امانت کو ادا کرنے والی تھیں ان مقاصد کو دیکھتے ہوئے اس بوجھ کو اٹھانے کی اپنے اندر ہمت پیدا کرلیں۔
Top