Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 47
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ لِيْ : ہوگا میرے ہاں وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ : اور نہیں يَمْسَسْنِىْ : ہاتھ لگایا مجھے بَشَرٌ : کوئی مرد قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِذَا : جب قَضٰٓى : وہ ارادہ کرتا ہے اَمْرًا : کوئی کام فَاِنَّمَا : تو يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوجاتا ہے
بولی اے رب کہاں سے ہوگا میرے لڑکا اور مجھ کو ہاتھ نہیں لگایا کسی آدمی نے66 فرمایا اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہے جب ارادہ کرتا ہے کسی کام کا تو یہی کہتا ہے اس کو کہ ہوجا سو وہ ہوجاتا ہے67
66:۔ حضرت مریم چونکہ ابھی کنواری تھیں۔ اور نہایت ہی عفیفہ اور پاکدامن تھیں۔ اس لیے یہ خوشخبری سن کر تعجب اور حیرت سے بولیں کہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔ میرے بیٹا کس طرح پیدا ہوگا۔ 67 اس پر فرشتے نے کہا کہ تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ظاہری اسباب کے بغیر جو چاہتا ہے پیدا کرلیتا ہے۔ اس کے لیے یہ کام کوئی مشکل نہیں۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو بس اس کام کے مکمل ہوجانے کے لیے صرف اس کا ارادہ ہی کافی ہوتا ہے۔ وَیُعَلِّمُهٗ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاة وَالْاِنْجِیْلَ ۔ یہ بھی فرشتے کا مقولہ ہے اور یُبَشِّرُکَ پر معطوف ہے۔ فرشتے نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ اس ہونے والے بچے کو کتاب و حکمت و اور تورات وانجیل کا علم دے گا۔ یہاں الکتاب میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے قرآن مراد ہے۔ اور حکمت سے سنت رسول اللہ یا پختہ باتیں مراد ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے اس وقت قرآن وسنت کا علم ان کو اللہ کی طرف سے وہبی طور پر عطا ہوگا۔ وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ رسولا کا عامل ناصب محذوف ہے ای یجعلہ رسولا۔ (روح ج 3 ص 166) اِنِّیْ میں رسولا عامل ہے۔ یعنی وہ بچہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا اور ان سے کہے گا کہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس اپنی صداقت کی نشانیاں لے کر آیا ہوں۔
Top