Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 131
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ لِيْ : ہوگا میرے ہاں وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ : اور نہیں يَمْسَسْنِىْ : ہاتھ لگایا مجھے بَشَرٌ : کوئی مرد قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِذَا : جب قَضٰٓى : وہ ارادہ کرتا ہے اَمْرًا : کوئی کام فَاِنَّمَا : تو يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوجاتا ہے
وہ بولیں اے میرے پروردگار میرے لڑکا کسی طرح ہوگا درآنحالیکہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا ہے،119 ۔ ارشاد ہوا ایسے ہی اللہ پیدا کردیتا ہے جو کچھ وہ چاہتا ہے،120 ۔ جب وہ کسی بات کو پورا کرنا چاہتا ہے تو بس اس سے کہتا ہے کہ ہوجا،121 ۔ سو وہ ہوجاتی ہے
،119 ۔ (بہ طریق مواصلت) حسب بیان انجیل حضرت مریم (علیہ السلام) کی رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی اور رخصتی کے قبل نامزد شوہر سے خلوت یہودی قانون میں بالکل ممنوع تھی (آیت) ” قالت رب “۔ انجیل میں اس مقام پر ہے کہ ” مریم (علیہ السلام) نے فرشتہ سے کہا “ (لوقا۔ 1:24) قرآن مجید نے اپنے حسب دستور اس موقع پر بھی انجیل کے بیان کی تصحیح کرکے یہ بتادیا کہ مریم (علیہ السلام) کی مخاطبت اب فرشتہ سے نہیں براہ راست حق تعالیٰ سے تھی، اور ہر صاحب نظر پر واضح ہے کہ اس سے مریم (علیہ السلام) کا مرتبہ معرفت و ایمان کتنا بڑھ جاتا ہے۔ (آیت) ” انی یکون لی ولد “۔ فرشتہ کی زبان سے وہ پوری تقریر سن کر اب حضرت مریم (علیہ السلام) اپنے مالک ومولی سے عرض کررہی تھیں۔ آپ کا یہ سوال ظاہر ہے کہ حیرت اور واقعہ کی غرابت کی بنا پر تھا نہ کہ شک و انکار کی بنا پر۔ فرشتہ یا فرشتوں سے دو بدو ہوجانے اور ان کی گفتگو سن لینے کے بعد انکار کا تو اب کوئی محل رہا ہی نہیں تھا۔ استبعاد البتہ باقی تھا جو عین لازمہ بشریت تھا۔ انجیل نے اس موقع پر جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ ” فرشتہ نے اس کے پاس اندر آکر کہا۔ سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے۔ خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اس کلام سے بہت گھبراگئی۔ اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا کلام ہے۔ فرشتہ نے اس سے کہا اے مریم (علیہ السلام) خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تو حاملہ ہوگئی اور بیٹا جنے گی، اس کا نام یسوع ہوگا، وہ بزرگ ہوگا۔ مریم (علیہ السلام) نے فرشتہ سے کہا۔ یہ کیونکر ہوگا جس حال میں کہ میں مرد کو نہیں جانتی اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی “۔ (لوقا۔ 1:28، 34) ،120 ۔ رفع استبعاد کے لئے حضرت مریم (علیہ السلام) کو یہاں یاد دلایا جارہا ہے کہ نظر مسبب الاسباب پر رکھنی چاہیے کہ وہی فاعل حقیقی ہے نہ کہ اسباب طبعی وظاہری پر کہ ان کی حیثیت محض واسطہ اور ذریعہ کہ ہے۔ (آیت) کذلک “۔ یعنی مس بشر کے بغیر ہی (آیت) ” یخلق ما یشآء “۔ ابھی چند ہی آیتیں قبل ذکر زکریا (علیہ السلام) اور بڑھاپے میں ان کی اولاد کا آچکا ہے۔ وہاں اس موقع کے لیے جو آیت تھی اس کے الفاظ تھے (آیت) ” کذلک اللہ یفعل ما یشآء “۔ وہاں (آیت) ” یفعل “۔ اور یہاں ” یخلق “۔ کا استعمال محض اتفاقی نہیں۔ مفسر محقق ابوحیان غرناطی نے خوب لکھا ہے کہ وہاں تو ولادت عام سنت الہی کے مطابق یعنی مرد وزن کے اتصال سے تھی اگرچہ وہ مرد وزن سن سے اتر چکے تھے وہاں قدرت الہی کے اظہار کے لئے یفعل بالکل کافی تھا، برخلاف اس کے یہاں عام وجاری سنت الہی سے ہٹ کر بغیر مردوزن کے اتصال کے صرف عورت ہی سے ولادت کا تحقق کرانا ہے۔ اس لیے یہاں لفظ بھی یخلق لایا گیا جو حق تعالیٰ کی صفت ایجاد واختراع پر دلالت کررہا ہے۔ ھناک یفعل لانہ ممکن اذھو من ذکر وانثی مسنین وھنا یخلق لانہ لم یعھد مولود من غیر ذکر فجاء بلفظ یخلق الدال علی الاختراع الصرف من غیر مادۃ ذکر (نہر) من حیث ان امر زکریا داخل فی الامکان العادی الذی یتعارف وان قل وفی قصۃ مریم یخلق لانہ لایتعارف مثلا وھو وجود ولدمن غیر والدفیہ ایجاد واختراع من غیر سبب عادی فلذلک جاء بلفظ یخلق الدال علی ھذا المعنی (بحر) ،121 ۔ (اور وہ ہوجاتا ہے خواہ اسباب کے واسطہ سے ہو یا بلاکسی سبب ظاہری کے) اس قسم کی آیتیں برابر ان فلسفیوں اور باطل مذہبوں کی رد میں ہیں جو حادث پر قیاس کرکے قدیم کو بھی سلسلہ اسباب کا پابند سمجھتے ہیں۔ (آیت) ” لہ “۔ نادانوں نے ایک سوال یہ پیدا کیا ہے کہ کوئی شے جب ابھی سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو حق تعالیٰ کا خطاب اس سے ہوتا کس طرح ہے ؟ کھلا ہوا جواب یہ ہے کہ علم الہی میں تو موجود ہی ہے یعنی اس کو حکم ہوتا ہے کہ خارج میں بھی موجود ہوجا۔ (آیت) ” یقول لہ کن “۔ قول۔ کن سے مراد اس دو حرفی لفظ کا تلفظ نہیں کہ یہ حروف تو خود ہی حادث ہیں۔ مراد اللہ تعالیٰ کا قول اس کیفیت کے ساتھ ہے جو اس کے شان کمال کے لائق ہیں۔ مراد اللہ تعالیٰ کا قول اس کیفیت کے ساتھ ہے جو اس کے شان کمال کے لائق ہے۔ اور جس طرح اس کی تمام صفات کی تفصیلات فہم بشری کی گرفت سے باہر ہیں اس کے قول کی یہی کیفیت تفصیل سے نہیں سمجھی جاسکتی۔ مراد صرف یہ کہ ارادۂ الہی اور اس کی تعمیل کے درمیان کوئی شئی حائل یا حاجب نہیں۔
Top