Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
دل سے چاہتا ہے ایک گروہ اہل کتاب میں سے کہ کاش تمہیں گمراہ کر دے حالانکہ وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ کو۔ لیکن وہ اس کا احساس نہیں کرتے
وَدَّتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْـکِتٰبِ لَوْیُضِلُّوْنَـکُمْ ط وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۔ (دل سے چاہتا ہے ایک گروہ اہل کتاب میں سے کہ کاش تمہیں گمراہ کر دے حالانکہ وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ کو، لیکن وہ اس کا احساس نہیں کرتے) (69) اہلِ کتاب کا اصل مرض گزشتہ آیات میں جس طرح ایک ترتیب سے تاریخی اور عقلی دلائل قائم کر کے اہل کتاب کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے بعد قرآن کریم کا ہر قاری یہود و نصاریٰ کے طرز عمل کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے کیونکہ اگر معاملہ صرف مشرکین عرب کا ہوتا تو ان کی ہٹ دھرمی کو ان کی جہالت پر محمول کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اہل کتاب میں تو علم کا نہ صرف چرچا تھا بلکہ ان میں بڑے برے علماء اور مشائخِ طریقت موجود تھے جو کسی کو درخورِاعتنانھیں سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود اپنے بےہودہ، جاہلانہ اور فرسودہ خیالات اور طرز عمل پر جمے رہنا ناقابلِ فہم سی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان کی اصل مرض کی نشاندہی کی گئی ہے۔ قرآن کریم چونکہ ہر بات میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتا ہے، اس لیے اس مرض کا ذکر کرتے ہوئے طَّـآئِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْـکِتٰبِ کہہ کر یہ واضح فرمایا ہے کہ اس مرض کا شکار تمام اہل کتاب نہیں بلکہ ان میں سے ایک بڑا گروہ ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسی گروہ کو اہل کتاب کی سربراہی اور پیشوائی حاصل ہے، جس کی وجہ سے دوسرے لوگ ان سے مختلف فیصلہ کرنے پر قادر نہیں ہو سکے۔ جس بیماری کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، وہ بیماری وہ ہے جس کا قرآن کریم نے اور بھی کئی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ وہ ہے اہل کتاب کا مسلمانوں کے خلاف عناد اور دشمنی جس کی بنیاد ان کا یہ حسد ہے کہ یہ آخری نبی بنی اسرائیل کی بجائے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے کیسے آگیا ؟ ہم مختلف جگہ اس کا حوالہ دے چکے ہیں کہ اہل کتاب کے بڑے بڑے علماء تسلیم کرتے تھے کہ محمد ﷺ وہی آخری نبی ہیں جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے۔ لیکن چونکہ وہ بنی اسماعیل میں آئے ہیں اس لیے ہم کسی طرح بھی انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حضرت صفیہ ( رض) جو ایک یہودی سردار کی بیٹی اور آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں، ان کی یہ بات حدیث کے ریکارڈ میں موجود ہے کہ میرے والد نے میرے چچا سے کہا کہ ہیں تو یہ وہی نبی، لیکن جب تک جان میں جان ہے میں ان کی بات چلنے نہیں دوں گا۔ چناچہ ان کا یہی جذبہ حسد ان کی سازشوں اور مخاصمتوں کا ہمیشہ سبب بنا رہا۔ وہ بظاہر ہمدرد بن کر آنحضرت ﷺ کی مجلسوں میں آتے، مسلمانوں سے قربت کا تعلق قائم رکھنے کی کوشش کرتے، لیکن مقصود صرف یہ ہوتا کہ کسی طرح ہم مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ مختلف طریقوں سے اشتباہات اٹھائے جاتے، غلط فہمیاں پیدا کی جاتیں اور اس طرح سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن ان نادانوں کو یہ خبر نہ تھی کہ اللہ کا آخری رسول دنیا میں اس انقلاب کی تکمیل کے لیے آیا ہے جس کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوا تھا اور اس ہدایت کو عام کرنے کے لیے آیا ہے جس کے لیے ہر نبی نے کوششیں کیں اور اللہ کی دھرتی پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے آیا ہے، جس کے لیے ہر نبی اور رسول نے قربانیاں دیں۔ ان کی کوششوں سے ہدایت کا یہ سفر رک نہیں سکتا۔ یہ قافلہ اپنی منزل تک پہنچ کے رہے گا البتہ گمراہ کرنے والے اس قافلے سے پچھڑ جائیں گے اور اس طرح اپنی قسمت کھوٹی کرلیں گے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ اپنا مقدر کھو رہے ہیں، لیکن انھیں اس کا احساس نہیں۔
Top