Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 43
لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ لَیْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَا فِی الْاٰخِرَةِ وَ اَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ
لَا جَرَمَ : کوئی شک نہیں اَنَّمَا : یہ کہ تَدْعُوْنَنِيْٓ : تم بلاتے ہو مجھے اِلَيْهِ : اس کی طرف لَيْسَ لَهٗ : نہیں اس کے لئے دَعْوَةٌ : بلانا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَا : اور نہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں وَاَنَّ : اور یہ کہ مَرَدَّنَآ : پھرجانا ہے ہمیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَاَنَّ : اور یہ کہ الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے هُمْ : وہ۔ وہی اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ والے (جہنمی)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو، ان کی کوئی دعوت نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں، اور بیشک ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور جو حد سے گزرنے والے ہیں وہی آگ میں جانے والے ہیں
لاَ جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلاَ فِی الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ مَرَدَّنَـآ اِلَی اللّٰہِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ھُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ۔ (المؤمن : 43) (اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو، ان کی کوئی دعوت نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں، اور بیشک ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور جو حد سے گزرنے والے ہیں وہی آگ میں جانے والے ہیں۔ ) لاَ جَرَمَ کی تحقیق اور خلاصہ بحث لاَ جَرَمَ … اصل کے اعتبار سے تحقیق کے معنی میں ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ لاَ بُدَّ ، لامحالہ کے معنی میں ہے۔ قاموس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ لاَ سے اس کی نفی مطلوب ہے جس کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ اور جَرَمَ فعل ماضی ہے جو حَقَّ اور ثَبَتَ کے معنی میں ہے۔ مردِمومن نے اپنے دلائل کو سمیٹتے ہوئے خلاصہ ٔ بحث کو سامعین کے سامنے رکھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ تم جن قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے کی مجھے دعوت دے رہے اور پھر ان کی پوجا پاٹ کی مجھے ترغیب دے رہے ہو یا جو بڑے لوگ اللہ تعالیٰ کے اختیارات سنبھالتے ہوئے لوگوں سے اپنی غیرمشروط اطاعت کروا رہے ہیں تم مجھے ان کی اطاعت کی طرف بلا رہے ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ ان کی دنیا میں کوئی دعوت ہے اور نہ آخرت میں۔ بعض اہل علم نے اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں فعل کی نفی اس کے فائدہ کی نفی کے پہلو سے ہے۔ یعنی ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نہ تو دنیا میں کوئی حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں پہنچے گا کہ ان کی خدائی کو تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جائے۔ کیونکہ پرستش اور بندگی کے لیے الوہیت کی جو صفات ضروری ہیں ان میں سے کوئی صفت بھی ان کے اندر نہیں پائی جاتیں۔ اور نہ انھوں نے خود کبھی دنیا میں اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور نہ وہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، ہمیں تسلیم کیوں نہ کیا گیا۔ رہے وہ لوگ جن لوگوں نے شرک کا یہ کھڑاگ رچا رکھا ہے وہ درحقیقت حد سے گزر جانے والے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف شریعت کی حدود کو پامال کیا بلکہ عقل اور انسانیت کی حدود بھی روند ڈالیں۔ کیونکہ حد سے گزر جانے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی خدائی کا دعویٰ کرے اور ان کو مانے، یا خود خدا بن بیٹھے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے باغی ہو کر دنیا میں خودمختاری کا رویہ اختیار کرے۔ ظاہر ہے ان میں سے کسی کے حق میں بھی نہ کوئی عقلی دلیل قائم ہے اور نہ کوئی نقلی۔ صرف خواہشِ نفس کے پرستار حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔
Top