Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 44
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ١ؕ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ
فَسَتَذْكُرُوْنَ : سو تم جلد یاد کروگے مَآ اَقُوْلُ : جو میں کہتا ہوں لَكُمْ ۭ : تمہیں وَاُفَوِّضُ : اور میں سونپتا ہوں اَمْرِيْٓ : اپنا کام اِلَى اللّٰهِ ۭ : اللہ کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ : دیکھنے والا بندوں کو
تو تم عنقریب ان باتوں کو یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بیشک اللہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے
فَسَتَذْکُرُوْنَ مَـآ اَقُوْلُ لَـکُمْ ط وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ ۔ (المؤمن : 44) (تو تم عنقریب ان باتوں کو یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بیشک اللہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔ ) مردِمومن کی تقریر کا اختتام اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردمومن کی تقریر کا آخری حصہ ہے جس میں اس نے خیرخواہی کی انتہا کردی ہے۔ جس طرح ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو حق نصیحت ادا کردینے کے بعد جب بیٹے کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں پاتا بلکہ قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید اس نصیحت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں، تو وہ اپنے دل میں محبت اور شفقت کے تمام تر جذبات کو سمیٹتے ہوئے یہ بات کہتا ہے کہ بیٹا ! تمہیں شاید آج یہ میری باتیں سمجھ نہیں آرہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب تم میری باتوں کو یاد کیا کرو گے کہ میرے باپ نے ٹھیک کہا تھا۔ لیکن اس وقت شاید عمل کرنے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ یہاں بھی مردمومن نے عمائدینِ سلطنت کے سامنے تمام تر خطرات کو سامنے دیکھتے ہوئے حقِ نصیحت ادا کرنے کی کوشش کی اور جب ان کی طرف سے کسی مثبت جواب کی امید نہ ہوئی تو تب اس نے یہ کہا کہ مجھے جو کہنا تھا، کہہ چکا، تم اسے قبول کرو یا نہ کرو۔ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ لیکن اس وقت حسرت کے سوا تمہارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں جس وقت کا ذکر کیا جارہا ہے اس سے مراد آخرت بھی ہوسکتی ہے کہ آخرت کے عذاب کو دیکھ کر تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی۔ اور یا اس سے مراد رسول کی تکذیب کی صورت میں جو عذاب آیا کرتا ہے وہ عذاب بھی ہوسکتا ہے کہ جب اس عذاب کی علامتیں ظاہر ہوں گی تو تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی، لیکن اس وقت بھی تمہاری ندامت نہ دنیا میں آنے والے عذاب کو روک سکے گی اور نہ آخرت کی سزا کو ٹال سکے گی۔ پھر مردمومن نے خطرات کو بھانپتے ہوئے نہایت جرأت سے یہ بات کہی کہ میں جانتا ہوں کہ تم میرے اظہارِحق کی کوشش کو برداشت نہیں کر پائو گے اور مجھے اس کی بڑی سے بڑی سزا دینے کی کوشش کرو گے، لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں، میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ہے، میں نے جو کچھ کہا سوچ سمجھ کر کہا اور اپنا فرض ادا کیا، اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے مجھے اس سے کوئی اندیشہ نہیں، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے، وہ میری ان ادنیٰ کاوشوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے کافرانہ رویئے کو بھی، مجھے اپنا فرض انجام دینا ہے اور تمہیں اپنا فرض ادا کرنا ہے، اب میرا معاملہ بھی اور تمہارا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ بعض اہل علم نے اس سے یہ بات بھی سمجھی ہے کہ تفویض صرف اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے ہی کو نہیں کہتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کے حالات اور انجام کو بھی اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا کرنے کے بعد ان کی عاقبت اور انجام کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور اپنی طرف سے کوئی بڑی بات کہنے کی کوشش نہ کی جائے۔
Top