Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 61
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَعِلْمٌ : البتہ ایک علامت ہے لِّلسَّاعَةِ : قیامت کی فَلَا تَمْتَرُنَّ : تو نہ تم شک کرنا بِهَا : ساتھ اس کے وَاتَّبِعُوْنِ : اور پیروی کرو میری ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ : یہ ہے سیدھا راستہ
اور بیشک وہ قیامت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے
وَاِنَّـہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَا وَاتَّبِعُوْنِ ط ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ وَلاَ یَصُدَّنَّـکُمُ الشَّیْطٰنُ ج اِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ۔ (الزخرف : 61، 62) (اور بیشک وہ قیامت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔ اور شیطان تم کو اس سے روکنے نہ پائے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے استدلال یعنی قریش نے جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات بابرکات کو ایک مذاق بنا کے رکھ دیا ہے اور ایک سیدھی بات کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ محض غیرسنجیدگی کی علامتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اور پھر بچپن میں آپ کا باتیں کرنا، اپنی نبوت کا اعلان کرنا اور کتاب کے دیئے جانے کی خبر دینا۔ اور پھر اپنی دعوت کے آغاز میں غیرمعمولی معجزات کا دکھانا، مٹی کی مورتیوں کو اللہ تعالیٰ کے نام سے اڑتے ہوئے پرندوں میں تبدیل کردینا، برسوں کے قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو زندہ کردینا۔ یہ سب اس بات کی علامتیں تھیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر موت کو زندگی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ مٹی کی مورتیوں کو زندہ جانوروں کی طرح قوت پرواز دے سکتا ہے تو اس کا خالق ومالک جس نے اپنے ایک بندے میں یہ صفات پیدا کی ہیں وہ ازسرنو مخلوقات کو زندہ کیوں نہیں کرسکتا۔ اگر وہ کلمہ ٔ کُن سے بن باپ کے بیٹا پیدا کرسکتا ہے تو کلمہ کُن سے قیامت برپا کیوں نہیں کرسکتا، اور تمام لوگوں کو زندہ کرکے میدانِ حشر میں کیوں نہیں لاسکتا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ مرنے اور جینے میں اصلی دخل ظاہری اسباب کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت کو ہے۔ اور یہی وہ بات ہے جس پر سب سے زیادہ زور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے مواعظ میں دیا ہے۔ انھوں نے آسمان کی بادشاہی اور ابدی زندگی کی منادی اس شان سے کی ہے کہ سننے والے دل پگھل کے رہ جاتے ہیں۔ اور آخرت کی تذکیر اس قوت سے فرمائی ہے کہ آخرت کے خوف اور شوق دونوں سے دل لبریز ہوجاتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تمسخر اڑا رہے ہو حالانکہ ان کی زندگی کے حالات سے یقین کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس میں شک و شبہ کے ادہام اڑ جاتے ہیں اور انکار و ارتیاب کی جگہ یقین کی دولت لینی لگتی ہے۔ اس لیے تم بھی اس معاملے میں شک و شبہ کا اظہار نہ کرو، بلکہ تمہاری بھلائی اس میں ہے کہ میرا اتباع کرو۔ یعنی آنحضرت ﷺ کا اتباع کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ اور یاد رکھو کہ شیطان صراط مستقیم کا کھلا ہوا دشمن ہے جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے کوشش کرے گا کہ تمہیں صراط مستقیم کی طرف آنے سے روکے۔ اس لیے نہایت چوکنا رہ کر اس کی دشمنی سے بچو اور اپنی عافیت کے لیے صراط مستقیم کی طرف بڑھو۔
Top