Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 59
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ
اِنْ هُوَ : نہیں وہ اِلَّا عَبْدٌ : مگر ایک بندہ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ : انعام کیا ہم نے اس پر وَجَعَلْنٰهُ : اور بنادیا ہم نے اس کو مَثَلًا : ایک مثال لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : اسرائیل کے لیے
ابنِ مریم وہ صرف ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے اپنا فضل فرمایا، اور بنی اسرائیل کے لیے اس کو ایک مثال بنایا
اِنْ ھُوَ اِلاَّ عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْـنٰـہُ مَثَلاً لِّـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ (الزخرف : 59) (ابنِ مریم وہ صرف ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے اپنا فضل فرمایا، اور بنی اسرائیل کے لیے اس کو ایک مثال بنایا۔ ) مسیح ابن مریم ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ تھا۔ البتہ ہم نے اس پر انعامات کیے کہ ہم نے اسے بغیر باپ کے پیدا کیا، اور ایسے معجزات عطا کیے جن کی مثال نہ پہلے ملتی ہے اور نہ بعد میں۔ وہ مٹی سے پرندے بناتے اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پھونکتے اور وہ سچ مچ پرندوں کی طرح اڑنے لگتے۔ مُردوں کو اللہ تعالیٰ کے نام پر زندہ کردیتے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ انعامات ان کی صفات کی صورت اختیار کرلیں گے اور ان میں خدائی صفات پیدا ہوجائیں گی۔ رہی یہ بات کہ انسان خاکی مخلوق ہے اور فرشتے نوری مخلوق۔ اور جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم ہے۔ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ کس مخلوق کو کس عنصر سے پیدا کردے اور ان سے کس قسم کی خدمات لے۔ لیکن یہ امرواقعہ ہے کہ کسی مخلوق کو کسی خاص عنصر سے پیدا کردینے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر یہ لازم نہیں ہوجاتا کہ وہ اس مخلوق کو اسی عنصر سے پیدا کرے جس سے وہ ایک دفعہ پیدا کرچکا ہے۔ اس لیے اگلی آیت میں فرمایا :
Top