Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہ تیرے رب کی راہ ہے ‘ سیدھی۔ ہم نے اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کردی ہیں ان لوگوں کیلئے ‘ جو یاددہانی حاصل کریں
وَھٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْمًا ط قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ ۔ (الانعام : 126) (اور یہ تیرے رب کی راہ ہے ‘ سیدھی۔ ہم نے اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لیے ‘ جو یاددہانی حاصل کریں) اللہ کا راستہ سیدھا ہے جو چاہے اس پر چل کر فائدہ حاصل کر لے اس آیت کا پہلا حصہ نہایت غور طلب ہے۔ عربیت کے لحاظ سے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اشارہ کے اندر فعل کے معنی پائے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے مستقیماً یہاں صراط کی صفت کی بجائے حال واقع ہو رہا ہے جس میں یہ زور دینا مقصود ہے کہ اے مشرکین مکہ تم جس دین کو قبول کرنے میں الجھ رہے ہو بلکہ تم اس کی دشمنی میں اندھے ہوئے جا رہے ہیں اور اس کی قبولیت کے لیے تم بار بار شرطیں عائد کر رہے ہو اور قسم قسم کے مطالبے کر رہے ہو وہ تو اپنے تئیں اس قدر واضح اور آسان ہے اور اس کا راستہ اس قدر مستقیم ہے کہ اس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ‘ کوئی خطرناک موڑ نہیں ‘ کوئی ایسا الجھائو نہیں جس میں آدمی الجھ کر منزل کھوٹی کر بیٹھے۔ اس کی تعلیمات نہایت آسان ‘ نہایت واضح ‘ فطرت کے نہایت قریب اور قابل عمل ہیں۔ مرور زمانہ سے کبھی ان میں کہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ اس کا کوئی حکم انسانی استطاعت اور انسانی مزاج سے ہٹا ہوا نہیں۔ اس کا ہر قانون اعتدال کی شان لیے ہوئے ہے اور اس راستے پر چلتا ہوا آدمی قدم قدم پر اللہ کی رحمت محسوس کرتا ہے اور پھر مزید یہ کہ اسلام کے اس راستے کو فرمایا گیا ہے کہ یہ تیرے رب کا راستہ ہے جس میں بیک وقت دو باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک تو لفظ رب کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ جس ذات نے تمہیں پیدا کیا اور پھر تمہاری بےبسی کی عمر میں جس طرح اس نے تمہاری زندگی کے امکانات اور تمہاری ضرورتوں کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمائے اور پھر جس طرح اس نے تمہیں حواس اور جوہر عقل سے نوازا اور قدم قدم زندگی کی بدلتی ہوئی ضرورتوں میں اس نے جس طرح تمہاری راہنمائی کی بالکل اسی طرح زندگی کی ہمہ گیر ضرورتوں اور نوع انسانی کی ہمہ گیر تبدیلیوں اور اجتماعی زندگی کی ہمہ گیر وسعتوں میں ضرورت تھی کہ تمہیں ایک ایسا نظام زندگی دیا جاتا اور دل کی بیداری کے لیے ایک ایسا اعتقادی شعور دیا جاتا جس سے تم آسانی سے اپنی زندگی کا سفر انفرادی بھی اور اجتماعی بھی جاری وساری رکھ سکو چناچہ دین کا یہ کشادہ راستہ کھول کر اور صراط مستقیم عطا کر کے تمہاری اسی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے اور مزید اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ جس ذات نے اے پیغمبر آپ پر یہ دین اتارا ہے وہ آپ کا رب ہے یعنی صرف وہ رب ہی نہیں بلکہ آپ کا رب ہے چناچہ رب کی اضافت رسول اللہ ﷺ کی ذات کی طرف ایک طرف تو آنحضرت کی تسلی کا سامان ہے اور آپ کے لیے انتہائی اعزاز کا باعث ہے اور ساتھ ہی مشرکین مکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم جس رب کی دی ہوئی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہو دنیا میں اگر اسے کسی سے خصوصی نسبت ہے تو وہ اس ذات با برکات سے ہے جسے تم مکہ کی گلیوں میں اذیت دے کر خوش ہوتے ہو اور جس کے لائے ہوئے دین کا تم تمسخر اڑاتے ہو اور تمہیں اندازہ نہیں کہ تم جو کچھ اس ذات کے ساتھ کر رہے ہو وہ اس کے ساتھ نہیں کر رہے بلکہ تم اللہ کے ساتھ کر رہے ہو کیونکہ محمد ﷺ کو اللہ سے اس قدر قریبی تعلق حاصل ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اس کی نسبت اپنی طرف فرما رہے ہیں اس لیے اس کی دشمنی کرتے ہوئے اور اس کے بارے میں ناروا منصوبہ بندی کرتے ہوئے یہ کبھی نہ بھولنا کہ اس کے بارے میں جو بھی تم کرنا چاہو گے وہ اصلاً اللہ کے خلاف اقدام ہوگا سوچ لو اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ ان باتوں کے بعد فرمایا کہ ہم نے اللہ کے احکام اور قرآن کریم کی آیات کو نہایت تفصیل سے کھول کھول کر بیان کردیا ہے جس کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں۔ لیکن پھر اپنے متذکرہ قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دین اسلام اور اسلامی دعوت اپنی تمام تر وضاحت کے باوجود مفید اسی کے لیے ہوگی جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا یعنی جو اس سے نصیحت اور یاد دہانی حاصل کرے گا۔ لیکن جس طرح وہ شخص جو اپنی آنکھیں بند رکھے اللہ تعالیٰ کبھی اسے مشاہدات کی دولت عطا نہیں کرتا ‘ جو اپنے کان بند رکھے وہ کبھی خوبصورت نوائیں اور دل آویز صدائیں نہیں سن سکتا اور کبھی فطری موسیقی سے لذت اندوز نہیں ہوسکتا۔ اس طرح جو اسلام کی طرف سے اپنے دل و دماغ کو بند کرلیتا ہے ‘ وہ کبھی اس کی قبولیت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ اگلی آیت کریمہ میں ان خوش قسمت لوگوں کا صلہ اور اجر بیان کیا جا رہا ہے جنھوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگایا اور صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کی اور راستے کے موانع کے سلسلے میں اللہ نے ان کی مدد فرمائی اور انھیں شرح صدر کی دولت سے نوازا یہ بجائے خودبہت بڑا انعام ہے۔ لیکن اس انعام کے بعد پھر ایمان و عمل اور قربانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس میں پورا اترنے والوں کو اللہ تعالیٰ اس انعام سے نوازتے ہیں جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا جا رہا ہے
Top