Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہ تیرے رب کی راہ ہے سیدھی، ہم نے اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لیے جو یاد دہانی حاصل کریں
ھٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِـيْمًا الایہ : چونکہ اشارہ کے اندر فعل کے معنی پائے جاتے ہیں اس وجہ سے مستقیما یہاں صراط سے حال پڑا ہوا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام ہے تو خدا کی کھولی ہوئی سیدھی راہ، فطرت کی صراط مستقیم، نہ اس میں پیچ و خم ہیں، نہ چڑھائیاں اور گھاٹیاں لیکن جنہوں نے اپنے اوپر اتنی غیر فطری نجاستیں لاد رکھی ہوں ان کو یہ راہ دشوار گزار معلوم ہو رہی ہے، قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ ، یعنی اس کے دین فطرت اور ملت ابراہیم ہونے کے سارے دلائل تفصیل سے ہم نے بیان کردیے ہیں لیکن دلائل کار آمد ان کے لیے ہوتے ہیں جن کے اندر یاد دہانی حاصل کرنے اور سوچنے سمجھنے کا ارادہ پایا جاتا ہے۔
Top