Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا راستہ ہے۔ جو لوگ غور کرنے والے ہیں ان کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔
آیت 126 یعنی آپ کے رب تک اور عزت و تکریم کے گھر تک پہنچانے والا راستہ معتدل راستہ ہے، جس کے احکام واضح کردیئے گئے ہیں، جس کے قوانین کی تفصیل یہاں بیان کردی گئی ہے اور خیر کو شر سے ممیز کردیا گیا۔ یہ تفصیل و توضیح ہر شخص کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں، پھر اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے لئے بہت بڑی جز اور خوبصورت اجر تیار کیا گیا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لھم دارالسلم عندربھم) ” ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے انکے رب کے ہاں “ چونکہ جنت ہر عیب، آفت و تکدر اور غم و ہموم جیسی ناخوشگواریوں سے سلامت اور پاک ہے، اس لئے اس کو ” دارالسلام “ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جنت کی نعمتیں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہوں گی کہ کوئی ان کا وصف بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ جنت کے اندر قلب و روح اور بدن کے لئے نعمتوں کے جو سامان ہیں تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی نعمت کی تمنا نہیں کرسکتے۔ اس جنت میں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو ان کے دل چاہیں گے اور جس سے ان کی آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی اور وہ اس جنت میں ان کے لئے نعمتوں کو جو سامان ہیں تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی نعمت کی تمنا نہیں کرسکتے۔ اس جنت میں ان کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو ان کے دل چاہیں گے اور جس سے ان کی آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی اور وہ اس جنت میں ابد الآباد تک رہیں گے۔ (وھو ولیھم) ” وہی ان کا ولی و مددگار ہے “ جو ان کی تدبیر اور تربیت کا مالک ہے، وہ ان کے تمام معاملات میں ان کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آتا ہے جو اپنی اطاعت پر ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے لئے ہر وہ راستہ آسان کرتا ہے جو انہیں اس کی محبت کی منزل تک پہنچاتا ہے اور وہ ان کی سرپرستی اپنے ذمے صرف اس لئے لیتا ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لاتے اور ایسے کام آگے بھیجتے ہیں جن سے ان کا مقصد اپنے آقا کی رضا مندی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص ہے جس نے اپنے آقا سے روگردانی کی اور اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا رہا تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کا سرپرست بن کر اس کے دین و دنیا کو تباہ کردیتا ہے۔
Top