Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 126
وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَھٰذَا : اور یہ صِرَاطُ : راستہ رَبِّكَ : تمہارا رب مُسْتَقِيْمًا : سیدھا قَدْ فَصَّلْنَا : ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : جو نصیحت پکڑتے ہیں
اور یہ ہے راستہ تیرے رب کا سیدھا ہم نے واضح کردیا نشانیوں کو غور کرنے والوں کے واسطے5
5 جو لوگ ایمان لانے کا ارادہ نہیں رکھتے ان پر اسی طرح عذاب اور تباہی ڈالی جاتی ہے کہ رفتہ رفتہ ان کا سینہ اس قدر تنگ کردیا جاتا ہے کہ اس میں حق کے گھسنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی۔ پھر یہ ہی ضیق صدر عذاب ہے جو قیامت میں بشکل محسوس سامنے آجائے گا۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے " رجس " کا ترجمہ جو عذاب سے کیا ہے اس کے موافق یہ تقریر ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے " رجس " کے معنی عذاب ہی کے لئے ہیں۔ مگر ابن عباس نے یہاں " رجس " سے مراد شیطان لیا ہے۔ شاید اس لئے کہ " رجس " ناپاک کو کہتے ہیں اور شیطان سے بڑھ کر کون ناپاک ہوگا۔ بہرحال اس تفسیر پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح ان پر بےایمانیوں کی وجہ سے شیطان مسلط کردیا جاتا ہے کہ کبھی رجوع الی الحق کی توفیق نہیں ہوتی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " اول فرماتا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ آیت دیکھیں تو البتہ یقین لاویں اور اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لاویں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے نقل کئے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر، وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے ان پر کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔ " باقی اللہ تعالیٰ کی طرف ارادہ ہدایت واضلال کی نسبت کرنا، اس کے متعلق متعدد مواضع میں ہم کلام کرچکے ہیں اور آئندہ بھی حسب موقع لکھا جائے گا۔ مگر یہ مسئلہ طویل الذیل اور معرکۃ الآراء ہے اس لئے ہمارا ارادہ ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھ کر فوائد کے ساتھ ملحق کردیا جائے۔ وباللہ التوفیق۔
Top