Siraj-ul-Bayan - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود ایک معبود ہے ، سو جو آخرت کو نہیں جانتے ، ان کے دل انکاری ہیں ، اور وہ سرکش ہیں ، (ف 1) ۔
1) آخرت کے عقیدہ کو اسلام نے نہایت اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کیونکہ جب تک نظام مکافات پر یقین نہ ہو ، اور جزاء وسزا کو نہ مانتا ہو ، ناممکن ہے کہ اخلاق و عادات کی درستی ہو سکے ، مگر جب آخرت کا ڈر دل سے اٹھ جاتا ہے تو دلوں میں انکار و وتمرد پیدا ہوجاتا ہے ، کیونکہ جب زندگی یہی تک محدود ، قیامت ، حشرنشر ، سب افسانہ ہے ، اگر جوابدہی اور مکافات عمل کا مسئلہ غلط ہے ، اور مرنے کے بعد جی اٹھنا محال ہے تو شرافت اور نیکی کی ضرورت ہے ، ؟ جب ظالم اور مظلوم دونوں کے لئے ابدی فنا ہے ، تو پھر کوئی شخص ظلم سے کیوں باز آئے رحم مروت ، انصاف اور حسن سلوک کی کیا حاجت رہی ، اور انسان کیوں نہ انتہا درجہ کا خود غرض اور طماع بن جائے ؟ آیت کا یہی مقصد ہے ، کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ان کے دلوں میں انکار وکبر پیدا ہوجاتا ہے ، وہ خود غرض ہوجاتے ہیں ، کیونکہ ایسے بلند نصب العین کا انکار گویا برائیوں کا اقرار واعتراف ہے ۔ حل لغات : اساطیر : جمع اسطورہ ، کہانی ، قصہ ، اوزارھم : اوزار ، وزر کی جمع ہے ، بمعنے بارگراں وبمنعے گناہ ۔
Top