Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 18
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اِ۟شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَرَمَادِ : راکھ کی طرح اشْتَدَّتْ : زور کی چلی بِهِ : اس پر الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں يَوْمٍ : دن عَاصِفٍ : آندھی والا لَا يَقْدِرُوْنَ : انہیں قدرت نہ ہوگی مِمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الضَّلٰلُ : گمراہی الْبَعِيْدُ : دور
ان لوگوں کے اعمال کی تمثیل جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا یہ ہے کہ جیسے راکھ ہو جس پر آندھی کے دن باد تند چل جائے۔ جو کچھ انہوں نے کمائی کی ہوگی اس میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑے گی۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔
آگے کا مضمون۔ آیات 23 تا 18:۔ آگے کے احوال : آگے ان حالات کی تفصیل آرہی ہے جن سے ان کفار و مشرکین کو آخرت میں سابقہ پیش آئے گا۔ پیرو اپنے لیڈروں پر لعنت بھیجیں گے اور لیڈر اپنے پیرو وں پر یہاں تک کہ شیطان بھی اپنے پیچھے چلنے والوں کو صاف سنا دے گا کہ کوئی مجھے ملامت نہ کرے بلکہ جس نے میری پیروی کی ہے وہ آج اپنی بدبختی پر خود اپنا سر پیٹے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کا حال یہ بیان ہوا ہے کہ وہ جنت میں براجمان ہوں گے اور ان کے درمیان مبارک سلامت کے تبادلے ہو رہے ہوں گے۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۔ شرک باعتبار حقیقت کفر ہے۔ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا، سے مراد وہ مشرکین ہی ہیں جو یہاں مخاطب ہیں۔ ہم دوسرے مقام میں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ شرک اپنی حقیقت کے اعتبار سے کفر ہی ہے۔ دین میں خدا کا صرف وہی ماننا معتبر ہے جو کام توحید کے ساتھ ہو۔ اگر اس کی ذات یا صفات یا اس کے حقوق میں کسی اور کو شریک بنا کر اس کو مانا جائے تو یہ ماننا معتبر نہیں ہے۔ یہ اس کے انکار ہی کے ہم معنی ہے۔ مشرکین کے اعمال کی تمثیل : یہ ان مشرکین کے اعمال کی تمثیل ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا یہ حال ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اعمال سے مراد یہاں ان کے وہ اعمال ہیں جو اپنی دانست میں انہوں نے نیکی کے اعمال سمجھ کر انجام دیے۔ فرمایا کہ قیامت کے روز ان کے اعمال راکھ کے ایک ڈھیر کی مانند ہوں گے جس پر کسی آندھی والے دن میں تند ہوا چل جائے اور وہ سب کو اڑا لے جائے۔ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ، یعنی اس اسی کمائی میں سے، جو شرک کے ساتھ انہوں کی ہوگی کچھ بھی ان کے پلے پر نے والی نہیں، وہ ساری کی ساری خاک اور راک ہو کر اڑ جائے گی، صرف اس کا وبال ان کے حصہ میں آئے گا۔ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ۔ یعنی ایک گم شدگی، گمراہی اور محرومی تو وہ ہوتی ہے جس کے بعد لوٹنے اور راستہ پانے کا بھی امکان باقی رہ جاتا ہے لیکن یہ وہ دور کی گم شدگی اور محرومی ہے جس کے بعد لوٹنے اور پانے کا سرے سے کوئی امکان ہی باقی نہیں رہے گا۔ یہاں اسی سورة کی آیت 3 پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ اور اسی طرح کے لوگوں کے اعمال کی ایک نہایت اعلی تمثیل سورة نور کی آیت 39 میں بھی ہے۔
Top