Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور کتنی قومیں اپنے سامان معیشت کی ناشکری کرنے والی ہوئی ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر چھوڑا۔ پس یہ ہیں ان کی بستیاں جو ان کے بعد آباد نہیں ہوئیں مگر بہت کم، اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے
عربیہ کا ایک لعنت بطر کے معنی اکڑنے اترانے اور فخر و ناز کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس کا استعمال بطور متعدی معروف نہیں ہے اس وجہ سے معیشتھا کے نصب کے بارے میں بڑا اختلاف ہے۔ عام طور پر لوگوں نے یہاں یا تو حرف جز محذوف مانا ہے یا ظرف استاذ امام کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ معیشتھا املکنا کا مفعول ہے۔ لیکن مجھے ان اقوال میں سے کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ بعضوں نے بطرت کو کفرت کے مضمون پر متضمن قرار دیا ہے۔ یہ رائے اقرب الی الصواب ہے۔ عربی میں بضرالحق کا استعمال تکبرعنہ کے مفہوم میں معروف ہے۔ یعنی اس نے حق سے متکبرانہ اعراض کیا۔ اسی طرح اگر کہیں بطرفلان لنعمۃ تو اس کا مفہوم ہوگا استخفھا فکفرھا (اس نے اس نعمت کو حقیر سمجھ کر اس کی ناشکری کی، میرے نزدیک ان استعمالات کی بنیاد تضمین ہی کے اصول پر ہے اور آیت میں بھی یہ لفظ اسی اصول پر استعمال ہوا ہے۔ رفابیت پر اترنے والی قوموں کا انجام یہ قریش کو انذار و تنبیہ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ اس سرزمین میں تم کو جو امن و رفاہیت حاصل ہے یہ تمہاری اپنی تدبیر و تدبر کا کرشمہ ہے اس وجہ سے تمہیں اس پر بڑا ناز و فخر ہے حالانکہ یہ جو کچھ تمہیں حاصل ہوا ہے خدا ہی کے فضل و کرم سے حاصل ہا ہے۔ اس کا حق یہ ہے کہ تم اس پر اترانے کے بجائے خدا کے شکر گزار بنو ورنہ یاد رکھو کہ تم سے پہلے کتنی قومیں گزری ہیں جو تمہاری ہی طرح خدا کی نعمتوں کو اپنا حق سمجھ کر ان پر اترانیں تو اس کی پاداش میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور ان کی بستیاں تم سے دور نہیں ہیں۔ تم ان پر سے گزرتے ہو۔ تلک اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ بستیاں مخاطب کی جانی پہچاین ہوئی ہیں۔ یہ اشارہ ثمود اور قوم لوط وغیرہ کی بستیوں کی طرف ہے جو قریش کی تجارتی گزرگاہوں پر تھیں۔ لم تکن من بعث الا قلیلاً میں میرے نزدیک وہی مضمون ہے جو سورة ہود میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے۔ ذلک من نبآء القریٰ نقضہ علیک منھا قائم حمید (100) یہ بستیوں کی سرگزشتیں ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ان میں سے بعض قائم ہیں اور بعض ختم ہو چیک ہیں) وہاں ہم اس آیت کی تفسیر کرچکے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ میرے نزدیک عربیت کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ویسے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان بستویں کا سارا اکترو فرتوا اجڑ گیا یہ الگ بات ہے کہ کبھی گڈریوں، چراہوں اور خانہ بندشوں نے ان میں اپنے ڈیرے ڈال لئے ہوں تو ڈال لئے ہوں۔ وکنا نحن الورثین یعنی وہ تو سب فنا ہوگئے جو اپنے آپ کو ان کا مالک و حکمران گمان کرتے تھے اور ان کی وراثت ہماری طرف لوٹ آئی اس لئے کہ تمام آسمان و زمین کے حقیقی مالک و وارث ہم ہیں ہیں۔
Top