Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 51
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : سو تم عبادت کرو اس کی ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سییدھا
بیشک اللہ ہی میرا بھی رب ہے، تمہارا بھی رب ہے تو اسی کی بندگی کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔
”خدا کے لیے لفظ ’ اب ‘ کے استعمال کی حقیقت : انجیلوں میں خدا کے لیے میرا باپ اور تمہارا باپ، کی جو تعبیر باربار آتی ہے، یہ قرآن نے اس کی تصحیح فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے در اصل جو بات فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، سو اسی کی بندگی کرو۔ لیکن نصاری نے متشابہات کی پیروی کی اور آپ کی واضح تعلیمات کو نظر انداز کردیا۔ عبرانی میں ’ اب ‘ کا لفظ باپ اور رب دونوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح ابن کا لفظ بیٹے اور عبد دونوں معنوں میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو سیاق وسباق متعین کرتا ہے کہ لفظ کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے لیکن جب نصاری نے حضرت مسیح کی الوہیت کا عقیدہ بنا لیا تو جو چیز بھی انہیں مفید مطلب نظر آئی اس کو انہوں نے اسی عقیدے کی تائید میں استعمال کرلیا قطع نظر اس سے کہ اس کا موقع و محل کیا ہے۔ پھر جب اصل انجیل کی جگہ صرف اس کے ترجمے رہ گئے تو ہر چیز کی تعبیر بھی یک قلم بدل کے کچھ سے کچھ ہوگئی۔ لیکن ان ساری تحریفات کے باوجود آج بھی انجیل میں ایسی تصریحات موجود ہیں جن سے صاف واضح ہے کہ حضرت مسیح جب خدا کو ’ اب ‘ کہتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ’ رب ‘ ہی ہوتی ہے چناچہ بعض مقامات میں انہوں نے دوسرے مترادف اس لفظ کے استعمال کر کے مطلب کو بالکل واضح کردیا ہے چناچہ یوحنا باب 20 : 18 میں ہے : ”لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر ان سے کہہ کر میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں“۔ اس ارشاد سے صاف واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو اپنا اب کہتے ہیں اس معنی میں وہ اس کو تمام خلق کا اب کہتے ہیں اور اس سے یہ بھی واضح ہے کہ وہ اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کی تعبیر کے لیے اس کی ربوبیت کے پہلو سے استعمال کرتے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ اپنا نسبی رشتہ جوڑنے کے لیے علاوہ ازیں وہ خدا کے لیے خدا کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں اور اس کو جس طرح دوسروں کا خدا کہتے ہیں اسی طرح اس کو اپنا بھی خدا کہتے ہیں۔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ، یعنی خدا تک پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے کہ اسی کو سب کا رب مانا جائے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی اور اسی کی عبادت کی جائے۔ جن لوگوں نے دوسرے وسیلے اور واسطے بیچ میں پیدا کرلیے ہیں انہوں نے اس سیدھی راہ میں بہت سے کج پیچ پیدا کرلیے ہیں جس کے سبب وہ شرک و گمراہی کی وادیوں میں بھٹک گئے ہیں۔ یہ راہ بغیر کسی کجی (عوج) کے ہے، یہ سیدھی خدا تک پہنچاتی ہے۔ نکرہ یہاں اس شاہراہ فطرت کی اہمیت و شان کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
Top