Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 63
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
پس اگر وہ اعراض کریں تو اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
اس آیت میں فرمایا کہ مباہلہ اس قضیے کو طے کرنے کی آخری صورت تھی لیکن اگر وہ اس پر بھی راضی نہیں ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ حق کی پیروی نہیں کرنا چاہتے بلکہ حق کی مخالفت کر کے خدا کی زمین میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ شرک تمام فساد کی جڑ ہے۔ اگر زمین و آسمان میں بہت سے معبود ہوتے تو ان کا سارا نظام تکوینی درہم برہم ہو کر رہ جاتا، اسی طرح اگر دین میں شرک کے لیے کوئی گنجائش تسلیم کرلی جائے تو اس دنیا کا سارا نظام عدل و قسط درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ آگلی آیات 64 تا 71 کا مضمون : حضرت مسیح ؑ کی اصلی حقیقت واضح اور نصاری پر حجت تمام کردینے کے بعد یہود و نصاری دونوں کو مخاطب کر کے ان کو توحید اور اسلام کی دعوت دی ہے۔ اس کا آغاز اس طرح فرمایا ہے کہ توحید کو ایک مشترک حقیقت قرار دیا ہے کہ جس طرح اسلام اس کی دعوت لے کر آیا ہے اسی طرح پچھلے انبیا اور صحیفوں نے بھی اسی چیز کی دعوت دی ہے اس وجہ سے اگر تم توحید کو جھٹلاتے ہو تو صرف قرآن کو نہیں جھٹلاتے بلکہ خود اپنے انبیا اور اپنے صحیفوں کو بھی جھٹلاتے ہو۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ کا حوالہ دیا ہے کہ اپنی بدعات کی تائید میں ان کے نام کو کیون ملوث کرتے ہو، وہ تو نہ یہودی تھے، نہ نصرانی وہ تو ایک حنیف مسلم تھے۔ تورات اور انجیل ان کے بعد نازل ہوئیں اور یہہودیت و نصرانیت کے شاخسانے تم نے ان کے بعد کھڑے کیے، پھر اپنی حمایت میں ان کو کیوں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہو ؟ ان کے ساتھ نسبت اور قربت کے حقدار تو وہ ہوسکتے ہیں جو ان کی ملت اسلام کی پیروی کریں، اور یہ شرف اگر حاصل ہے تو محمد ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہے نہ کہ تم کو جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہو۔ اس کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ ان اہل کتاب کے فتنوں سے بچ کے رہو۔ ان کی ساری کوشش اس بات کے لیے ہے کہ تمہیں صراط مستقیم سے ہٹا کر گمراہی کی راہ پر ڈال دیں۔ ساتھ ہی اہل کتاب کو بھی سرزنش کی ہے کہ جانتے بوجھتے کہ حق کیا ہے، اس حق کی مخالفت کرنا اور دوسروں کو بھی اس حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرنا آخر یہ کیا پیشہ ہے جو تم نے اہل کتاب ہوتے ہوئے اپنے لیے پسند کیا ہے۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top