Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 63
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
تو اگر یہ لوگ پھر جائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے
فَاِنْ تَوَلَّوْا : پس اگر اب بھی انہوں نے دلائل حق سے روگردانی اور توحید سے اعراض کیا تو اللہ ان کو عذاب دے گا (کیونکہ یہ مفسد ہیں) ۔ فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِالْمُفْسِدِيْنَ : اور اللہ مفسدوں کو خوب جانتا ہے اِنْ کی جزا محذوف ہے۔ اصل کلام اس طرح تھا : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَ اللہ ُ یُعَذِّبُھُمْ عذاب کا باعث تھا مفسد ہونا پس علت کو معلول کے بجائے ذکر کردیا (تاکہ حکم عذاب کی علت معلوم ہوجائے اور حکم کا ثبوت دلیل سے ہوجائے) کیونکہ کفر و معاصی کو دنیا میں پھیلا کر اور لوگوں کو ایمان سے روک کر ملک میں بگاڑ پیدا کرنا اور خود ولی نعمت کی نا شکری اور نافرمانی اور اس کے رسول کی مخالفت کرکے عالم کو تباہ کرنا عذاب پانے کا سبب ہے اور اللہ کو ان کا مفسد ہونا معلوم ہے (پس لا محالہ اللہ ان کو عذاب دے گا) اس آیت میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حق سے روگردانی فساد انگیز حرکت ہے (اس سے امن تباہ ہوجاتا ہے ) ‘ وا اللہ اعلم۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نجران کا وفد مدینہ میں آیا تو اس کی ملاقات یہودیوں سے ہوئی اور حضرت ابراہیم کے متعلق دونوں فریق کا مناظرہ ہوگیا۔ عیسائیوں نے کہا کہ ابراہیم نصرانی تھے اور ہم ان کے دین پر ہیں لہٰذا ہمارا ان سے خصوصی تعلق ہے اور یہودیوں نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے ہم ان کے مذہب پر ہیں ان کا ہم سے قریب ترین تعلق ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا : دونوں گروہوں کا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے دین سے کوئی تعلق نہیں ابراہیم ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور اللہ کے فرمان بردار تھے میں ان کے دین پر ہوں لہٰذا تم سب ابراہیم (علیہ السلام) کے دین یعنی اسلام کا اتباع کرو۔ یہودی بولے آپ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ کو رب بنا لیا اسی طرح ہم بھی آپ کو رب بنالیں۔ عیسائی کہنے لگے آپ کی یہ تو مرضی ہے کہ یہودیوں نے جو بات عزیر کے بارے میں کہی ہے وہی ہم آپ کے متعلق کہنے لگیں اس پر اللہ نے آیت ذیل نازل کی۔
Top