Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
دو شخصوں نے جو تھے تو انہی ڈرنے والوں ہی میں سے، پر خدا کا ان پر فضل تھا، للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تمہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْهِمُ الْبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ ۥ ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ یوشع اور کالب کا مثالی کردار : رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا، رجلان سے مراد، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، یوشع اور کالب ہیں جو اس مہم کے ارکان میں تھے جو فلسطین کے حالات کی تفتیش کے لیے بھیجی گئی تھی۔ " الذین یخافون " میں عام طور پر لوگوں نے " یخافون " کے مفعول کو محذوف مانا ہے یعنی یخافون اللہ، وہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے۔ اگرچہ میرے استاذ ؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے لیکن لیکن دو وجہ سے اس تاویل پر میرا دل نہیں جمتا۔ ایک تو یہ کہ یہ موقع مفعول کے اظہار کا تھا نہ کہ اس کے حذف کا، اس لیے کہ یہاں التباس پیدا ہوسکتا ہے اور التباس کے مواقع میں اظہار مستحسن ہے نہ کہ حذف۔ دوسری یہ کہ اس صورت میں ٰہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت خدا سے ڈرنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ جن کے اندر یوشع اور کالب بھی تھے۔ اگر یہ بات ہے تو انعام الٰہی کی تخصیص انہی دو حضرات کے لیے کیوں ہوئی، پھر تو انعم اللہ علیہما کی جگہ انعم اللہ علیہم ہونا تھا۔ علاوہ ازیں تورات اور قرآن دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس وقت بنی عناق کے خوف سے پوری قوم کا دل بیٹھ گیا تھا، صرف یہ دو اللہ کے بندے پوری قوم میں ایسے نکلے جو خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ اللہ کے عہد پر استوار رہے۔ اس وجہ سے قرین صواب توایل میرے نزدیک یہ ہے کہ ہرچند یوشع اور کالب تھے تو اسی قوم میں سے جس پر خوف اور بزدلی کی موت طاری تھی لیکن اللہ کا ان پر فضل و انعام تھا کہ وہ اس وبائے عام میں مرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ ایمان اور عزم پر استوار رہنے کی انہوں نے توفیق پائی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جب پوری قوم کی قوم اس طرح ہمت ہار بیٹھے جس طرح بنی اسرائلی ہار بیٹھے تو بہادر سے باہدر آدمی کے اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں۔ بڑا ہی باوفا اور صداقت شعار ہوتا ہے وہ مرد حق جو ایسے نازک موقع پر بھی اپنی وفاداری اور صداقت شعاری نباہ لے جائے۔ یوشع اور کالب کے کردار کا یہی پہلو ہے جس کے سبب سے عہد و میثاق کی اس سورة میں قرآن نے ان کا ذکر کر کے ان کو زندہ جاوید بنا دیا تاکہ جو لوگ خدا کی راہ پر چلنے کا اردہ کریں وہ ان کے اس مثالی کردار سے یہ سبق لیں کہ جب سب سو جائیں تو جاگنے والے کس طرح جاگتے ہیں اور جب سب مرجاتے ہیں تو زندہ رہنے والے کسی طرح زندہ رہتے ہیں۔ قرآن نے یہاں بزلوں کے اندر کے بہادروں اور مردوں کے اندر کے زندوں کو اس لیے نمایاں کیا ہے کہ بہادروں کے اندر بہادر اور زندوں کے اندر زندہ تو بہت نظر آجائیں گے لیکن وہ زندگی بخش ہستیاں بہت کمیاب ہیں جو مردوں کو زندگی بخشتی ہیں اگرچہ اسی راہ میں انہیں خود اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑجائیں۔ یوشع اور کالب کی تاریخی تقریر : ادْخُلُوْا عَلَيْهِمُ الْبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۔ یہ ان دونوں مردان حق کی تقریر ہے جو انہوں نے اپنی ہمت ہاری ہوئی قوم کا حوصلہ بحال کرنے کے لیے کی۔ انہوں نے للکارا کہ شہر کے پھاٹک سے ان پر چڑھائی کرو۔ جب تم یہ اقدام کر گزروگے تو تمہی غالب رہوگے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ بندے جب اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ان کے پاس جو طاقت ور قوت موجود ہے اس کو میدان میں ڈال دیتے ہیں تب وہ اپنی مددونصرت سے ان کو نوازتا ہے، گھروں میں بیٹھے رہنے والوں کے لیے اس کی آسمانی تائید نہیں اترا کرتی۔ تورات میں ان کی یہ تقریر ان الفاظ میں ہے۔ " اور نون کا بیٹا یشوع اور یغنہ کا بیٹا کالب، جو اس ملک کا حال دریافت کرنے والوں میں سے تھے، اپنے اپنے کپڑے پھاڑ کر بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہنے لگے کہ وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اس میں سے گزرے نہایت اچھا ملک ہے۔ اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پنچائے گا اور وہی ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہم کو دے گا فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو، وہ تو ہماری خوراک ہیں، ان کی پناہ ان کے سر پر سے جاتی رہی ہے اور ہمارے ساتھ خداوند ہے، سو ان کا خوف نہ کرو۔ تب ساری جماعت بول اٹھی کہ ان کو سنگسار کرو " (گنتی باب 13۔ 6۔ 10) وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ یعنی اگر خدا پر ایمان ہے تو خدا نے تو قسم کے ساتھ اس ملک کی میراث تم کو دینے کا وعدہ فرمایا ہے، پھر خدا پر بھروسہ رکھو، اس کے حکم کی تعمیل کا عزم کرو۔ جب تم اپنا ضرف ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوگے تو وہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔
Top