Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 55
وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَّذَكِّرْ : اور نصیحت کیجیے فَاِنَّ الذِّكْرٰى : پس بیشک نصیحت تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ : فائدہ دیتی ہے مومنوں کو
اور یاددہانی کرتے رہو کیونکہ یاددہانی ایمان والوں کو نفع پہنچاتی ہے۔
وذکرفان الذکرٰی تنفح المومنین (55) یعنی شریروں اور سرکشوں سے تو اعراض کرو لیکن ان لوگوں کو سمجھاتے رہو جو تمہاری بات سنتے ہیں۔ ایمان کے طالبوں کو تمہاری تعلیم و تذکیر سے نفع پہنچتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اوپر کی آیت میں اعراض کی جو ہدایت ہی اس کا تعلق قریش کے ان سرکش لیڈروں سے ہے جو غرور کے سبب سے کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن آنحضرت ﷺ اس خیال سے ان کے ایمان کے لئے زیادہ فکر مند تھے کہ یہ ایمان لائے گے تو اس سے دین کو تقویت حاصل ہوگی اور دوسروں کے لئے ایمان کی راہ کھلے گی۔ مصلحت تھی اس وجہ سے نبی ﷺ ایک مدت تک ان کے پیچھے سرگرداں رہے لیکن جب ان پر حجت تمام ہوگئی اور واضح ہوگیا کہ یہ پتھر اپنی جگہ سے کھسکنے والے نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے پیچھے وقت ضائع کرنے سے روک دیا۔
Top