Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 19
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ تم كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح نَسُوا : جنہوں نے بھلادیا اللّٰهَ : اللہ کو فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ۭ : تو اللہ نے بھلادیا خود انہیں اُولٰٓئِكَ هُمُ : یہی لوگ وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بن جائو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے ان کو خود ان کی جانوں سے غافل کردیا یہی لوگ اصلی نافرمان ہیں۔
(ولا تکونو گا لذین نسوا اللہ فانسھم انفسھم اولیک ھم الفسقون) (19)۔ فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح نہ بن جائو جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ان کو خود ان کے انجام سے غافل کردیا۔ (گا لذین نسو اللہ) سے اشارہ یہود کی طرف ہے۔ یہود ہی ان منافقین کے مرشد تھے قرآن نے ان کو آگاہ فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح اگر تم بھی خدا کو بھلا بیٹھے تو یاد رکھو کہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ و گے بلکہ اپنے ہی کو تباہ کرو گے۔ (جو خدا کو بھلا دیتے ہیں وہ خود اپنے کو بھلا دیتے ہیں)۔ (فانسھم انفسھم) میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو لوگ خدا کو بھلا دیتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے خیر و شر اور اپنی عاقبت سے بالکل بےپرواہ ہوجاتے ہیں۔ زندگی کی ساری قدر و قیمت اور اس کا سارا اشرف و جمال اس حقیقت کے سمجھنے پر منحصر ہے کہ خالق نے اس کو محض چند روزہ عیش دنیا کے لیے نہیں بنایا ہے بلکہ اس لیے بنایا ہے کہ انسان اس کو خدا کے احکام کے تحت گزار کر اپنے کو ابدی بادشاہی کا سزا دار بنائے۔ یہ معراج ظاہر ہے کہ اسی کو حاصل ہوگی جو ہمیشہ اس حقیقت کو یاد رکھے کہ یہ زندگی اس کو اتفاقہ نہیں مل گئی ہے بلکہ ایک بخشنے والے کی بخشی ہوئی ہے اور اس نے ایک خاص مقصد سے یہ اس کو بخشی ہے۔ اگر اس مقصد کے تحت میں اس کو گزاروں گا تب تو یہ عظیم ابدی نعمت ہے اور اگر اس مقصد کو بھلا بیٹھا تو یہ آپ سے آپ ایک ابدی لعنت بن جائے گی۔ (اولیک ھم انفسقون) فرمایا کہ خدا کے اصل نافرمان یہی لوگ ہیں۔ انہوں نے خدا کو بھلایا تو خدا کے ساتھ اپنی زندگی کے تعلق کی نوعیت بھی بھول بیٹھے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خدا کے بالکل ہی نافرمان بن گئے۔ اس سے خدا کی یاد کی حقیقت بھی واضح ہوئی کہ اس کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی اس تعلق کی نوعیت کو ہمیشہ اپنے سامنے مستحضر رکھے جو اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ اسی کے استحضار سے یہ یاد زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو یہ یاد کچھ نتیجہ خیز نہیں ہوتی بلکہ یہ بالکل رسمی سی چیز بن کے رہ جاتی ہے جس کا ہونا نہ ہونا دونوں یکساں ہوتا ہے۔
Top