Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 149
وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا١ۙ قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَ : اور لَمَّا : جب سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ : گرے اپنے ہاتھوں میں (نادم ہوئے) وَرَاَوْا : اور دیکھا انہوں نے اَنَّهُمْ : کہ وہ قَدْ ضَلُّوْا : تحقیق گمراہ ہوگئے قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَئِنْ : اگر لَّمْ يَرْحَمْنَا : رحم نہ کیا ہم پر رَبُّنَا : ہمارا رب وَيَغْفِرْ لَنَا : اور (نہ) بخش دیا لَنَكُوْنَنَّ : ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور جب ان کو تنبہ ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ وہ تو گمراہ ہوگئے تو بولے کہ اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہمارا قصور معاف نہ کیا تو ہم نامرادوں میں سے ہوجائیں گے
وَلَمَّا سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ وَرَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا ۙ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۔ سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ ، عربی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی عام طور پر نادم اور خجل ہونے کے کیے گئے ہیں لیکن ندامت و خجالت کا لازم چونکہ غلطی پر متنبہ ہونا بھی ہے اس وجہ سے اگر اس کا ترجمہ متنبہ ہونا کیا جائے تو میرے نزدیک غلط نہ ہوگا۔ اس محاورے کی اصل کیا ہے ؟ اس بارے میں اہل لغت کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف قدرتی نتیجہ ہے اس بات کا کہ ہر محاورے کی اصل کی تحقیق ہے بڑا مشکل کام۔ مجھے کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ کس چیز کا ہاتھ میں گرایا جانا گویا اس کا سامنے آجانا ہے ایسی حالت میں ایک غبی بھی اس پر متنبہ ہوجاتا ہے اس لیے کہ ہاتھ کنگن کے لیے آرسی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر یہ توجیہ صحیح ان لی جائے تو مطلب یہ ہوا کہ سامری اور اس کے ساتھیوں کے پر پگنڈے سے مسحور ہو کر بنی اسرائیل یہ حماقت کرنے کو تو کر بیٹھے لیکن سامنے جب بھاں بھاں کرتا ہوا بچھڑا نظر آیا اور معلوم ہوا کہ یہ بنی اسرائیل کا خدا برآمد ہوا ہے تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، ان کو اپنی حماقت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آئی اور اپنی گمراہی کا احساس ہوا اور بولے کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہمارے اس جرم کو معاف نہ کیا تو ہم تو نامراد ہوئے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہ احساس ان لوگوں کو ہوا جن کے اندر کچھ سوجھ بوج موجود تھی۔ عوامی جوش کے بحران میں تو وہ صحیح صورت حال کا اندازہ نہ کرسکے لیکن جب نتیجہ سامنے آگیا تو ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے دیکھا کہ یہ تو معاملہ بہت ہی خراب ہوگیا ہے۔ اجتماعی زندگی میں اس طرح کے مواقع بڑی ہی آزمائش کے اور بڑے ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ کوئی ایک شیطان اٹھتا ہے اور جذباتی عوام کی بھیڑ اپنے اردگرد جمع کر کے کوئی ایسا فتنہ اٹھا دیتا ہے جس سے پوری جماعت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور بسا اوقات سمجھ دار اور ذمہ دار لوگ بھی اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔
Top