Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا بوجہ اس کے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار اور اپنے اوپر ظلم کرتے رہے
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ :۔ زبان کا ایک اسلوب : ہم ایک سے زیادہ مقامات میں زبان کے اس اسلوب کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ جب صلہ اور فعل میں مناسبت نہ ہو تو وہاں تضمین ہوتی ہے یعنی کوئی ایسا فعل وہاں محذوف مانیں گے جو موجود خلا کو بھر سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لفط کم استعمال ہوتے ہیں، لیکن معنی میں بہت وسعت ہوجاتی ہے۔ یہاں تضمین کھول دی جائے تو پوری بات یوں ہوگی بِمَا كَانُوْا یکفرون بِاٰيٰتِنَا و يَظْلِمُوْنَ انفسہم، بوجہ اس کے وہ ہماری آیات کا انکار کرتے اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ اگلی آیات 10 تا 25 کا مضمون :۔ پہلے قریش کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا احسان جتا کر ان کو ملامت کی کہ کس طرح اللہ نے تم کو اس سرزمین محترم میں قوت و شوکت دی، تم کو خوف سے نچنت کیا اور تمہارے لیے معاش و معیشت کی راہیں کھولیں لیکن تم خدا کے شکر گزارو فرمانبردار ہونے کے بجائے ناشکرے اور اس کے نافرمان ہوگئے۔ اس کے بعد آدم و ابلیس کا وہ ماجرا جو بقرہ میں یہود کو سنایا گیا ہے بعض تفصیلات کے اضافہ کے ساتھ قریش کو سنایا کہ شیطان نے آدم اور ان کی ذریت کی ابدی دشمنی کی جو قسم کھائی تھی وہ قسم جس طرح اڈم و حوا کو دھوکا دے کر اور جنت سے نکلوا کر اس نے ان پر پوری کی، اسی طرح اس نے اپنی وہ قسم تم پر بھی پوری کرلی ہے اور تم پوری طرح اس کے جال میں پھنس چکے ہو اور اس کا جو نتیجہ تمہارے حق میں نکل سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top