Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور جن کے پلڑے ہلکے 7 ہوئے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈالا۔ کیونکہ وہ ہماری آیتوں سے ناانصافی کیا کرتے تھے
7 اعمال کا وزن حق کے ساتھ کیسے ؟ آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت (وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۝) 7 ۔ الاعراف :8) (یعنی اس دن وزن صرف حق یا حقیقت کا ہوگا) یعنی جتنی کسی عمل میں حقیقت ہوگی اتنا ہی وہ عمل وزنی ہوگا مثلاً ایک شخص اپنی نماز نہایت خلوص نیت سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی رضامندی چاہتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل یقیناً اس شخص کی نماز سے بہت زیادہ وزنی ہوگا جس نے اپنی نماز بےدلی سے، سستی کے ساتھ اور دنیوی خیالات میں مستغرق رہ کر ادا کی اور جس عمل میں حق کا کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اس کا وزن کیا ہی نہیں جائے گا، جیسے سورة کہف کی آیت نمبر 105 میں مذکور ہے کہ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی آیات سے کفر کیا ہوگا ان کے لیے ہم میزان قائم ہی نہیں کریں گے۔ اور سورة فرقان کی آیت نمبر 23 میں فرمایا کہ ہم ایسے کافروں کے اعمال کی طرف پیش قدمی کریں گے تو انہیں اڑتا ہوا غبار بنادیں گے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میزان عدل صرف ان لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو ایمان لائے تھے اور ان کے اعمال اچھے اور برے، وزنی اور کم وزن والے ملے جلے ہوں گے۔ کافروں کے لیے ایسی میزان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا حق کے ساتھ وزن کیا جائے گا یعنی فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی تھی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعمال کی میزان (ترازو) ایسی ہی ہوگی جیسی ہمارے استعمال میں آتی ہے، اس کے دو پلڑے ہوں گے ایک میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے میں برائیاں۔ اس ترازو کی زبان بھی ہوگی زبان سے مراد ترازو کے اوپر کے ڈنڈے کے درمیان میں لگی ہوئی وہ سوئی ہے جو خفیف سے خفیف فرق کو بھی ظاہر کردیتی ہے اور یہ باتیں صرف ہمارے سمجھانے کے لیے کافی سمجھی گئی ہیں باقی اس کی صحیح کیفیت کیا ہوگی ؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ اس دنیا میں تو اعمال اعراض کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن اس دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا اور جس عمل میں جس قدر حق ہوگا اسے اتنا ہی بڑا جسم والا اور وزنی بنایا جائے گا پھر انہیں اس ترازو میں تولا جائے گا۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top