Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور جس کی تولیں ہلکی ہوئیں سو وہی ہیں جنہوں نے اپنا نقصان کیا4 اس واسطے کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے5
4 قیامت کے دن سب لوگوں کے اعمال کا وزن دیکھا جائے گا۔ جن کے اعمال قلبیہ و اعمال جوارح وزنی ہوں گے وہ کامیاب ہیں اور جن کا وزن ہلکا رہا وہ خسارہ میں رہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ " شخص کے عمل وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں۔ ایک ہی کام ہے، اگر اخلاص و محبت سے حکم شرعی کے موافق کیا۔ اور برمحل کیا، تو اس کا وزن بڑھ گیا اور دکھاوے کو یا ریس کو کیا یا موافق حکم نہ کیا یا ٹھکانے پر نہ کیا تو وزن گھٹ گیا۔ آخرت میں وہ کاغذ تلیں گے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برائیوں سے درگزر ہوا اور ہلکے ہوئے تو پکڑا گیا " بعض علماء کا خیال ہے کہ اعمال جو اس وقت اعراض ہیں، وہاں اعیان کی صورت میں مجسد کردیے جائیں گے۔ اور خود ان ہی اعمال کو تولا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال تو غیر قارالذات اعراض ہیں جن کا ہر جزء وقوع میں آنے کے ساتھ ہی ساتھ معدوم ہوتا رہتا ہے۔ پھر ان کا جمع ہونا تلنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ میں کہتا ہوں کہ گراموفون میں آجکل لمبی چوڑی تقریریں بند کی جاتی ہیں، کیا وہ تقریریں اعراض میں سے نہیں ؟ جن کا ایک حرف ہماری زبان سے اس وقت ادا ہوسکتا ہے جب اس سے پہلا حرف نکل کر فنا ہوجائے پھر یہ تقریر کا سارا مجموعہ گراموفون میں کس طرح جمع ہوگیا ؟ اسی سے سمجھ لو کہ جو خدا گراموفون کے موجد کا بھی موجد ہے اس کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ ہمارے کل اعمال کے مکمل ریکارڈ تیار رکھے جس میں سے ایک شوشہ اور ذرہ بھی غائب نہ ہو۔ رہا ان کا وزن کیا جانا تو نصوص سے ہم کو اس قدر معلوم ہوچکا ہے کہ وزن ایسی میزان (ترازو) کے ذریعہ سے ہوگا جس میں کفتین اور لسان وغیرہ موجود ہیں لیکن وہ میزان اور اس کے دونوں پلے کس نوعیت و کیفیت کے ہوں گے اور اس سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہوگا ؟ ان باتوں کا احاطہ کرنا ہماری عقول و افہام کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لئے ان کے جاننے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی۔ بلکہ ایک میزان کیا اس عالم کی جتنی چیزیں ہیں بجز اس کے کہ ان کے نام ہم سن لیں اور ان کا کچھ اجمالی سا مفہوم جو قرآن و سنت نے بیان کردیا ہو عقیدہ میں رکھیں، اس سے زائد تفصیلات پر مطلع ہونا ہماری حد پرواز سے خارج ہے۔ کیونکہ جن نوامیس و قوانین کے ماتحت اس عالم کا وجود اور نظم و نسق ہوگا، ان پر ہم اس عالم میں رہتے ہوئے کچھ دسترس نہیں پاسکتے۔ اسی دنیا کی میزانوں کو دیکھ لو کتنی قسم کی ہیں۔ ایک میزان وہ ہے جس سے سونا چاندی یا موتی تلتے ہیں۔ ایک میزان سے غلہ اور سوختہ وزن کیا جاتا ہے۔ ایک میزان عام ریلوے اسٹیشنوں پر ہوتی ہے جس سے مسافروں کا سامان تولتے ہیں۔ ان کے سوا " مقیاس الہوا " یا " مقیاس الحرارت " وغیرہ بھی ایک طرح کی میزانیں ہیں جن سے ہوا اور حرارت وغیرہ کے درجات معلوم ہوتے ہیں۔ تھرما میٹر ہمارے بدن کی اندرونی حرارت کو جو اعراض میں سے ہے تول کر بتلاتا ہے کہ اس وقت ہمارے جسم میں اتنے ڈگری حرارت پائی جاتی ہے۔ جب دنیا میں بیسیوں قسم کی جسمانی میزانیں ہم مشاہدہ کرتے ہیں جن سے اعیان و اعراض کے اوزان و درجات کا تفاوت معلوم ہوتا ہے تو اس قادر مطلق کے لئے کیا مشکل ہے کہ ایک ایسی حسّی میزان قائم کر دے جس سے ہمارے اعمال کے اوزان و درجات کا تفاوت صورۃً و حسّاً ظاہر ہوتا ہو۔ 5 اور آیات کا انکار کرنا ہی ان کی حق تلفی ہے جسے یظلمون سے ادا فرمایا ہے۔
Top