Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 30
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ اِ۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ١ۚ یُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١٘ۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَهُوْدُ : یہود عُزَيْرُ : عزیر ابْنُ اللّٰهِ : اللہ کا بیٹا وَقَالَتِ : اور کہا النَّصٰرَى : نصاری الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ اللّٰهِ : اللہ کا بیٹا ذٰلِكَ : یہ قَوْلُهُمْ : ان کی باتیں بِاَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ کی يُضَاهِئُوْنَ : وہ ریس کرتے ہیں قَوْلَ : بات الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ قَبْلُ : پہلے قٰتَلَهُمُ : ہلاک کرے انہیں اللّٰهُ : اللہ اَنّٰى : کہاں يُؤْفَكُوْنَ : بہکے جاتے ہیں وہ
اور یہود عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نٓصری مسیح کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں یہ سب ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ یہ ان لوگوں کی بات کی نقل کر رہے ہیں جو ان سے پہلے مبتلائے کفر ہوئے۔ اللہ ان کو غارت کرے کہاں ان کی عقل الٹی ہوئی جا رہی ہے
تفسیر آیت 30، 31: آیت 30: وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ۔ عیزر، کا نام تورات میں عزرا آیا ہے۔ ان کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ بخت نصر کے ہاتھوں یہود پر جو تباہی آئی اس میں تورات کے صحیفے بھی بالکل ناپید ہوگئے کہا جاتا ہے کہ یہ عزرا ہیں جنہوں نے اپنی یاد داشت سے ازسرنو تورات کو مرتب کیا۔ عجب نہیں کہ ان کے اسی کارنامے کی بنا پر یہود نے ان کو ابن اللہ بنا دیا ہوتا کہ اس دھونس سے ان کی مرتب کی ہوئی تورات کو درجہ استناد حاصل ہوسکے اور اگر کوئی اس پر شبہ وارد کرے تو اس کو یہ جواب دے کر چپ کیا جاسکے کہ یہ وہی تورات ہے جو موسیٰ ؑ پر نازل ہوئی، اس کی گم شدگی کے بعد اللہ نے اپنے بیٹے عزرا کے ذریعہ سے اس کو زسر نو مرتب کرایا ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ اس دور کے مشرکانہ ماحول میں اس قسم کا کوئی اشغلا بہت کار آمد ہوسکتا تھا۔ مجھے یہود کے لٹریچر میں، یہود کے اس واہمہ کی کوئی تفصیل نہیں مل سکی۔ لیکن قرآن کا انداز بیان شاہد ہے کہ یہود کے ہاں یہ ایک جانی پہچانی ہوئی بات تھی۔ اگر یہ جانی پہچانی ہوئی بات نہ ہوتی تو وہ قرآن کے اس بیان کے خلاف ضرور اعتراض اٹھاتے۔ چناچہ قرآن نے اس ذیل میں یہ جو فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو رب بنا لیا ہے تو بعض لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ ہم احبار اور ربان کو رب تو نہیں مانتے آنحضرت ﷺ نے ان کے اس سوال کا ان کو مسکت جواب دیا تب وہ مطمئن ہوئے۔ اسی طرح اگر قرآن کی اس بات پر کسی کو شبہ یا اعتراض ہوتا تو وہ ضرور سوال اٹھاتا لیکن اس طرح کا کوئی اعتراض یا شبہ کہیں نقل نہیں ہے۔ حضرت مسیح کے ابن اللہ بنانے کی بحث پوری تفصیل سے آل عمران کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ اس کو اس کے محل میں دیکھیے۔ اہل کتاب کے عدم ایمان کے دلائل : اوپر والی آیت میں یہود و نصاری کے متعلق یہ بات جو بیان ہوئی ہے کہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اب یہ اس کے دلائل بیان ہو رہے ہیں کہ یہود نے عزیر کو خدا کا بیٹا بنایا اور نصاری نے مسیح کو تو اس شرک کے بعد خدا پر ان کا ایمان معتبر نہیں۔ خدا پر ایمان کی یہ بنیادی شرط ہے کہ اس کی ذات، صفات اور اس کے حقوق میں کسی کو ساجھی نہ قرار دیا جائے۔ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ یعنی یہ ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں جو انہوں نے خود گھڑی ہیں۔ خدا نے کہیں یہ نہیں کہا ہے کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں یا مسیح خدا کے فرزند ہیں۔ اہل کتاب میں اگلوں کی عامیانہ تقلید : يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ، مضاھات کے معنی مشابہت و مشاکلت کے ہیں۔ یعنی ان سے پہلے جن لوگوں نے یہ کلمہ کفر ایجاد کیا یہ بےسمجھے بوجھے طوطے کی طرح اس کی نقل کیے جا رہے ہیں۔ سورة آل عمران کی تفسیر میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہود اور نصاری نے اپنی بدعات میں نقل تو اڑائی ہے ہم عصر مشرک قوموں کی لیکن ان پر رنگ چڑھایا ہے اپنے ہاں کے متشابہ الفاظ و کلمات کا۔ مثلاً پال نے مسیحیت کو رومیوں اور یونانیوں میں مقبول بنانے کے لیے ان کے عقائد اور مشرکانہ تصورات سے مواد اخذ کیا اور پھر لفظ کلمہ اب، ابن وغیرہ کلی مدد سے، جو انجیلوں میں خدا اور مسیح کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ ایک پوری متھالوجی تیار کردی۔ لفظ اب اور ابن جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں، عبرانی میں باپ اور رب، بیٹے اور بندے کے معنوں میں استعمال ہوتے تھے اور اپنے محل میں یہ اپنے مفہوم کو بےتکلف واضح کرتے تھے لیکن جب عبرانی زبان ایک متروک زبان بن گئی اور مسیحیوں کے ہاتھوں میں صرف انجیلوں کے ترجمے رہ گئے تو ان الفاظ کے وہی مفہوم اصلی مفہوم بن گئے جو ترجمہ کی زبان میں معتبر تھے۔ مثلاً عرب کے عیسائی اب اور ابن کے الفاظ ٹھیٹھ باپ اور بیٹے کے معنی میں لینے لگے اس لیے کہ عربی میں ان کے یہی مفہوم معتبر تھے۔ یہی صورت حال دوسرے مقامات میں بھی پیش آئی کہ عقائد کا ماخذ اصل کتاب نہیں رہ گئی بلکہ ترجمہ کی زبان بن گئی۔ قرآن نے یہاں اسی گمراہی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے پیشرو گمراہوں نے ان کے لیے جو گورکھ دھندا کفر و ضلالت کا تیار کردیا ہے یہ آنکھ بند کر کے اسی کی تقلید کیے جا رہے ہیں اور اصل حقیقت کی طرف توجہ دلانے والوں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ، قاتلہم اللہ، عربی میں لغت کا کلمہ ہے، جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں، خدا ان کو غارت کرے۔ انی یوفکون، تعجب اور حسرت و افسوس دونوں کا حامل ہے اور اس موقع کے لیے موزوں ہے جب کوئی شخص بالکل بدیہی حقائق کے خلاف کوئی روش اختیار کرے۔ آیت 31۔ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۔ احبار و رہبان کو رب بنانے کا مفہوم : اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ۔ اوپر فرمایا تھا ولا یحرمون ما حرم اللہ، اب یہ اس کی دلیل بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے اپنے فقیہوں اور راہبوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔ احبار، حبر، کی جمع ہے جس کا غالب استعمال یہود کے فہا کے لیے ہوا ہے۔ رھبان، راھب کی جمع ہے۔ یہ نصاری کے مشائخ اور صوفیوں کے لیے معروف ہے۔ ان کو رب بنانے کی حقیقت عدی بن حاتم کی ایک مشہور روایت سے واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہود و نصاری اپنے احبارو ربہان کو رب تو نہیں مانتے۔ حضور نے فرمایا، کیا یہ بات نہیں ہے کہ جو وہ حرام کردیں اس کو وہ حرام مان لیتے ہیں اور جس چیز کو جائز کردیں اس کو وہ جائز مان لیتے ہیں ؟ بولے یہ بات تو ہے۔ حضور نے فرمایا یہی ان کو رب بنانا اور یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔ مسیح ابن مریم کے بارے میں مزعومات :‘ والمسیح ابن مریم ’ اسی سیاق میں فرمایا کہ نصاری نے مسیح ابن مریم کو رب بنا لیا لیکن فی الجملہ امتیاز پیدا کرنے کے لیے ان کا ذکر الگ کردیا تاکہ ان تمام مزعومات کی طرف اشارہ ہوجائے جو نصاری نے حضرت مسیح سے متعلق ایجاد کیے۔ وہ رب تو بنائے ہی گئے لیکن مزید برآں یہ ہوا کہ ان کو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنا دیا گیا۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۔ یعنی یہ مشرک انہوں نے اس کے باوجود اختیار کیا کہ تورات و انجیل دونوں میں نہایت تاکید اور وضاحت کے ساتھ صرف الہ واحد کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سے متعلق ضروری حوالے ہم تفسیر سورة آل عمران میں نقل کر آئے ہیں۔ ‘ سبحنہ ’ کا مفہوم : سبھں ہ کا لفظ تنزیہہ کے لیے آتا ہے لیکن اس کے اندر توحید کی نہایت واضح منطقی دلیل بھی ہے۔ وہ یوں کہ کسی چیز کی مسل اور بنیادی صفات سے بالکل متناقض صفات کا اس کے ساتھ جوڑ ملانا بالبداہت خلاف عقل ہے۔ اس اصول کے مطابق خدا کا کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی شان الوہیت کے منای ہے کیونکہ اس سے اس کی مسلمہ صفات کی نفی لازم آتی ہے۔ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث اپنے مقام میں گزر چکی ہے۔
Top