Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 36
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاٰكَ : تمہیں دیکھتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : نہیں يَّتَّخِذُوْنَكَ : ٹھہراتے تمہیں اِلَّا : مگر۔ صرف هُزُوًا : ایک ہنسی مذاق اَھٰذَا : کیا یہ ہے الَّذِيْ : وہ جو يَذْكُرُ : یاد کرتا ہے اٰلِهَتَكُمْ : تمہارے معبود وَهُمْ : اور وہ بِذِكْرِ : ذکر سے الرَّحْمٰنِ : رحمن (اللہ) هُمْ : وہ كٰفِرُوْنَ : منکر (جمع)
یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں”کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداوٴں کا ذکر کیا کرتا ہے؟“ 39 اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں۔ 40
سورة الْاَنْبِیَآء 39 یعنی برائی کے ساتھ ان کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتارہا ہے، بلکہ مذاق اڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چست کرتے ہوں گے۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کے خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے۔ سورة الْاَنْبِیَآء 40 یعنی بتوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں، مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔
Top