Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سُنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔“153
سورة الْاَعْرَاف 153 یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تاکہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہوجانے کے بعد تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا انداز تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جو شخص حکمت تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پاسکتا ہے۔ اس آیت کا اصل مقصود تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمناً اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہوجانا چاہیے اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے۔ اسی سے یہ بات بھی مستنبَط ہوتی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو مقتدیوں کو خاموشی کے ساتھ اس کی سماعت کرنی چاہیے۔ لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوگیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ جبری قرأت خواہ جہری ہو یا سِرّی، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالک اور امام احمد کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سرّی دونوں صورتوں میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورة فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
Top