Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 90
وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
وَقَالَ : اور بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَئِنِ : اگر اتَّبَعْتُمْ : تم نے پیروی کی شُعَيْبًا : شعیب اِنَّكُمْ : تو تم ضرور اِذًا : اس صورت میں لَّخٰسِرُوْنَ : خسارہ میں ہوگے
اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اس کی بات ماننےسے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا”اگر تم نے شعیب ؑ کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہو جاوٴ 74گے۔“
سورة الْاَعْرَاف 74 اس چھو ٹے سے فقرے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھہر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَدیَنَ کے سردار اور لیڈر دراصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق و دیانت کے جن مستقل اصولوں کی پابندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چورا ہے پر بستے ہیں، اور مصر اور عراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کردیں اور بےضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پوزیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھوٹ اور بےایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبردست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہوجائے گی۔
Top