Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم اللہ کی وفاداری کا درجہ ہرگز حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم خرچ نہ کرو ان چیزوں میں سے جنھیں تم محبوب رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو یقینا اللہ اسے جاننے والا ہے
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط 5 وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ۔ (تم اللہ کی وفاداری کا درجہ ہرگز حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم خرچ نہ کرو ان چیزوں میں سے جنھیں تم محبوب رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو یقینا اللہ اسے جاننے والا ہے) (92) اس آیت کریمہ میں مختلف باتیں تشریح طلب ہیں جن کے بغیر اس آیت کو سمجھنا آسان نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں الْبِرَّ کا لفظ ایک خاص سیاق کلام میں وارد ہوا ہے اور یہی لفظ اس سے ملتے جلتے سیاق کلام میں سورة بقرہ کی آیت 177 میں آچکا ہے۔ مخاطب دونوں جگہ اگرچہ اہل کتاب ہیں لیکن سورة بقرہ میں روئے سخن کا اصل ہدف یہود ہیں اور یہاں سورة آل عمران میں نصاریٰ ہیں۔ دونوں جگہ آپ دیکھیں گے کہ یہود و نصاریٰ پر مکمل اور جامع تنقید فرمانے اور اتمامِ حجت کے بعد یہ بات فرمائی گئی ہے کہ تم الْبِرَّ کو حاصل نہیں کرسکتے ہو۔ الْبِرَّ کو حاصل کرنے کے لیے جن حقائق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یا جو حقائق الْبِرَّکا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں سورة البقرہ کی آیت نمبر 177 میں انھیں تفصیل سے بیان فرما دیا گیا ہے اور وہاں ہم اپنے طور پر اس کی تشریح بھی عرض کرچکے ہیں۔ یہاں مقصود تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کی طرف توجہ دلائی جائے لیکن ان کا دوبارہ ذکر کرنا شاید بلاغت کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ اس لیے جس شخص کی نگاہ بھی اس آیت پر اس لحاظ سے ہوگی کہ یہ اس سورة کریمہ کی آیت ہے جو سورة البقرہ کا تتمہ ہے تو پھر اسے یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہونا چاہیے کہ الْبِرَّکے مقدمات اور اس کے نتائج کو یہاں ذکر کیوں نہیں فرمایا گیا۔ سورة البقرہ میں الْبِرَّوالی آیت اس وقت آئی جب یہود کے کاروبارِ مذہب کو پوری طرح بےنقاب کردیا گیا تھا اور انھوں نے اپنے بارے میں ان پڑھ عربوں کے دلوں میں جو خوش فہمیاں پیدا کر رکھی تھیں اور اپنے تقدس اور مشیخیت کا جو رعب ان کے دلوں میں بٹھا رکھا تھا اس کا تاروپود پوری طرح بکھیر دیا گیا تھا اور ان کے بنیادی تصورات کی کمزوریوں اور ان کی اخلاقی خرابیوں کو ایک ایک کر کے اس طرح نمایاں کیا گیا تھا جس سے یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ کی طرف سے حق کی روشنی ملی تھی لیکن انھوں نے اپنے لیے اندھیرے پسند کیے۔ اب اگر یہ اللہ کی طرف سے نئی آنے والی روشنی جو نبی آخر الزماں اور قرآن کریم کی شکل میں ان تک پہنچی ہے۔ اسے قبول نہیں کریں گے تو یہ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو محروم کردیں گے اور ان کی گزشتہ بد اعمالیاں دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اپنی محرومیوں میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں کریں گے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں نصاریٰ کو بطور خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کے عقائد کی کمزوریوں کو واضح کیا گیا ہے عقلی اور نقلی دلائل سے اس طرح انھیں بےبس کردیا گیا کہ بعد کے سوالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں۔ پھر انھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اب بھی تمہارے لیے موقع ہے کہ تم اسلام کی دعوت کو قبول کرلو اور تم نے لوگوں کے سامنے جو تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اسے اتار پھینکو ورنہ یاد رکھو تمہیں اس انجام سے واسطہ پڑنے والا ہے جس میں دنیا بھر کی دولت بھی تمہیں عذاب سے بچا نہ سکے گی۔ اس کے بعد انھیں یاد دلایا گیا ہے کہ تمہیں خوب معلوم ہے کہ تمہارا اپنے پروردگار سے جو حقیقی رشتہ ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تمہارے اور اللہ کے درمیان الْبِرَّ کا تعلق ہونا چاہیے، الْبِرَّ کا ترجمہ عموماً نیکی سے کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ نا مکمل اور ناکافی ترجمہ ہے۔ اس لفظ کی اصل روح ایفائے عہد اور ادائے حقوق و فرائض ہے۔ وہ حقوق و فرائض اللہ کے ہوں یا بندوں کے اس تقسیم سے ان کی حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اللہ کے حقوق جس طرح اللہ کی ذات وصفات اور اس کے احکام سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح بندوں کے حقوق بھی اللہ کے احکام کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ بندوں میں سے کوئی بندہ بھی ذاتی طور پر کسی طرح کا استحقاق نہیں رکھتا۔ اس لحاظ سے جب آدمی اللہ کے حقوق ادا کرتا ہے تو تب بھی اللہ سے اپنے تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے تو تب بھی اللہ کی رضا کے حصول کی فکر کرتا ہے۔ مقصود ہر لحاظ سے اللہ کی ذات ہے۔ اگر اس بات کو سمجھ لیاجائے تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ ایک بندے کا اپنے رب سے تعلق تمام تر تعلقات کے حوالے سے وفاداری، نیازمندی اور کمٹمنٹ کا ہے۔ یہود ہوں یا نصاریٰ یہ دونوں اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد کہتے ہیں اور دونوں ملت ابراہیم کے دعویدار ہونے کے داعی ہیں اور دونوں اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کے نبیوں کو جو عظمتیں ملی ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا کی قیادت کا جو منصب ملا ہے وہ ان کے کسی ذاتی رشتے یا ذاتی حیثیت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ اللہ سے وفاداری کے حقوق کی ادائیگی کا نتیجہ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جن کی ملت پر ہونے کا انھیں دعویٰ ہے ان کے بارے میں یہ خوب جانتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی رضا کے حصول اور اس سے وفاداری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ گھر چھوڑا، وطن سے بےوطن ہوئے، قوم نے برداشت نہ کیا، ملکوں ملکوں پھرتے رہے، دنیا بھر کی صعوبتیں اٹھائیں، بیوی اور نوزائیدہ بچے کو وادی غیرذی زرع میں چھوڑ آئے، بیٹا لڑکپن کی عمر کو پہنچا، باپ کی آرزوئوں اور امیدوں کی علامت بننے لگا تو حکم ہوا کہ بیٹے کو ہماری خاطر ذبح کردو۔ عظیم باپ نے اس حکم کی تعمیل میں آستینیں چڑھا لیں۔ زمین پر لٹا کر پوری قوت سے گلے پر چھری چلائی کہ اللہ نے ہاتھ روک دیا اور اس قربانی کو قبول فرمایا۔ اس طرح سے جب زندگی کے تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر نکلے تو تب دنیا کی امامت کا شرف حاصل ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے تمام تر مناصب اور ان کی عظمتیں ان کے بر وتقویٰ کا نتیجہ تھیں اور تم نے محض ظاہری دینداری کا لبادہ اوڑھ کر یہ سمجھ لیا ہے کہ تم اللہ کے محبوب بن جاؤ گے۔ الْبِرَّ کے مقام کو حاصل کرنے کے لیے یہاں صرف ایک چیز کا ذکر فرمایا گیا ہے اور یہی ایک چیز ہے جو اہل کتاب کی قلعی کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ یہود کی اصل کمزوری جس سے نصاریٰ بھی بری نہیں اور جو آج تک ان کی علامت بنی ہوئی ہے اور وہ جہاں بھی رہیں اس علامت سے پہچانے جاتے ہیں وہ ان کا بخل اور خست ہے۔ چناچہ ان کی اسی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا گیا کہ تم جب تک محبوب ترین چیزوں کو اللہ کے راستوں میں خرچ نہیں کرو گے اس وقت تک اللہ سے وفاداری کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ یہود کی تو یہ شہرت رہی ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا تو بڑی دور کی بات ہے وہ تو اپنی ذات پر بھی خرچ کرتے ہوئے ہمیشہ خست سے کام لیتے ہیں۔ آج بھی ان کی آبادیاں ان کے بخل اور کمینگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ جہاں بھی رہیں گے اپنی اس عادت بد سے ہمیشہ پہچانے جائیں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بھلائی کا راستہ روکنے، خیر کے سرچشموں کو تباہ کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دنیا کو ہمیشہ کے لیے ایسے مہلک ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے جو انسانیت کی مکمل تباہی کا باعث بنیں ان کی دولت ہمیشہ فراوانی سے لٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن خیر اور بھلائی کی قوتوں کو توانا کرنے کے لیے وہ کبھی ایک پیسہ خرچ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی برائی کے سرچشموں کا وجود ملتا ہے اس کے پیچھے آپ کو یہودی ذہن اور یہودی سرمایہ کار فرما دکھائی دے گا۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ خدا کے ماننے والے لوگ ہیں، لیکن خدا کے انکار پر مبنی کمیونزم انہی کی دماغی کاوش کا نتیجہ ہے۔ وہ اخلاقیات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن جن مفکروں نے اخلاق کی جڑ ماری ہے وہ انہی کے گھروں سے نکلے ہیں۔ ان کی کتابیں بےحیائی کی تردید کرتی ہیں لیکن دنیا بھر میں بےحیائی کو پھیلانے والا ہر ادارہ انہی کے دودھ سے پلتا ہے۔ انسانوں کی تباہی کے لیے مہلک سے مہلک ہتھیار انہی کی قوت ایجاد کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ نے ان کی اصل بیماری کو نشان زد کیا ہے اور پھر محبوب ترین چیزوں کو مال و دولت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کو عموم کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ جس طرح مال و دولت کے معاملے میں ان کا بخل اور یا برائی کی خاطر مال و دولت کا خرچ کرنا ان کی سرشت بن چکا ہے اسی طرح ان کی ذاتی حیثیت ان کے عہدے اور ان کے مناصب اور ان کے دل و دماغ کی صلاحیتیں ہر جگہ برائی کے مراکز کے کام آتی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ یاد رکھو ! تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ تم سازشوں میں اور سازشوں کے ذریعے خرچ کرتے ہو، لیکن اللہ کے علم سے وہ سازشیں مخفی نہیں رہتیں۔ تم نہایت رازداری سے مسلمانوں کی تباہی کے منصوبے بناتے ہو اور ان کی تشکیل پر دماغ لڑاتے ہو اللہ انھیں بھی خوب جانتا ہے اور اگر کہیں نیکی کے ارادے سے کوئی پیسہ خرچ کرتے ہو تو اللہ اس سے بھی واقف ہے جس طرح وہ ہر برائی پر سزا دے گا اسی طرح وہ نیکی پر جزا بھی دے گا۔ جب تک تم ان بنیادی تصورات کو دل و دماغ کا حصہ نہیں بنائو گے اور البر کو اپنی حقیقی منزل قرار نہیں دو گے اور اس کی خاطر تمام ممکن ذرائع کو خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گے اس وقت تک اللہ کے یہاں تمہارا کوئی مقام نہیں ہوگا۔ یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا وہ سیاق کلام کے حوالے سے تھا اور اہل کتاب کے چہرے سے وہ نقاب بھی اتارنا تھا جو انھوں نے اللہ سے اپنے تعلق کے حوالے سے پہن رکھا تھا اور ان کی اس دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر ان کے اصل مرض کو بتانا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت جس طرح اپنا سیاق وسباق رکھتی ہے اسی طرح اپنی ذات میں مستقل حیثیت کی مالک بھی ہے۔ اس آیت کو بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں دونوں حیثیتیں دکھائی دیتی ہیں۔ سیاق وسباق کو تو ہم واضح کرچکے، لیکن مستقل حیثیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ معاملہ صرف اہل کتاب کا نہیں بلکہ اب اس نئی بننے والی امت یعنی امت اسلامیہ کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر وہ اللہ سے حقیقی تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتی اور البر کے مقام تک پہنچنا چاہتی ہے تو اس کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اپنی مطلوب اور محبوب چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ انسان کی پسندو ناپسند یکساں نہیں ہوتی۔ لیکن جب اہداف اور مقاصد یکساں ہوں تو پسند و ناپسند میں واجبی سا امتیاز رہ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تمام جائز حلال اور طیب نعمتیں جو اللہ نے انسانوں کو عطا فرمائی ہیں ان میں سے جو نعمت بھی ایک مومن کو زیادہ محبوب ہو اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردینا کمال بندگی کے حصول کا ذریعہ ہے اور البر کا یہی تقاضا ہے۔ البتہ ! اس میں دیکھنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ نعمتوں میں فرقِ مراتب کبھی تو انسان کی پسند و ناپسند سے ہوتا ہے اور کبھی اسلامی ضرورتوں کے تحت ہوتا ہے۔ معرکہ حق و باطل میں مسلمان فوج اور اسلامی حکومت کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں ہاتھ بٹانا اور آگے بڑھ کر ان میں زیادہ سے زیادہ حصہ ادا کرنے کی کوشش کرنا یہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی نیکی ہے کیونکہ اس وقت اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ہر وہ چیز قربان کی جائے جو اسلام کی بالادستی کا ذریعہ بنے اور اگر ملک و ملت کے حالات پرسکون ہوں اور ضرورت اس بات کی ہو کہ تعلیمی ادارے زیادہ سے زیادہ کھولے جائیں تاکہ مسلمانوں میں تعلیمی تناسب بڑھے، ایسی صورت میں تعلیم سے متعلق جس چیز کی بھی ضرورت ہو ان میں سے بہتر سے بہتر چیزوں کو مہیا کرنا کمال بندگی اور البر کا تقاضا ہوگا۔ البتہ ! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مسلمان ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں نازک حالات پیدا کردیتی ہیں یا زلزلے کی شکست و ریخت زندگی دشوار کردیتی ہے یا آفاتِ ارضی و سماوی حالات کی ابتری میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خرچ کرنے والا اپنے مہنگے کپڑے، اپنی پسندیدہ خوشبو، اپنے نفیس جوتے یا اور کوئی ایسی محبوب چیزیں مشکلات کا شکار لوگوں میں پہنچائے بلکہ اس وقت اگر لوگ وبا سے مر رہے ہیں تو سب سے پسندیدہ چیز دوائوں کا مہیا کرنا ہوگا اور اگر سر پہ چھت نہیں رہی اور لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں تو خیموں اور بستروں کا مہیا کرنا سب سے بڑی نیکی ہوگی غرضیکہ محبوب چیز کی ایک متعین تعریف بہت مشکل ہے۔ جس طرح خرچ کرنے والا اس کا فیصلہ کرسکتا ہے اسی طرح حالات اس فیصلے میں آسانی پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ ! اگر حالات کا دبائو کسی بات پر مجبور نہ کرتا ہو اور آدمی اپنے طور پر اللہ کو راضی کرنے کے لیے محبوب سے محبوب چیز اس کے راستے میں دینا چاہتا ہے تو پھر اس کا آسان پیمانہ وہی ہے جس کو ہر انسانی طبیعت سمجھتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جیسے ہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ ( رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور میرے پاس سب سے قیمتی چیز میرا وہ باغ ہے جس میں برحأ کنواں بہتا ہے اس سے بہتر میرے پاس کوئی اور چیز نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی حقیقی بندگی اور رضا کے مقام کو حاصل کرنے کے لیے اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کر دوں۔ آپ اسے قبول فرمایئے اور جہاں چاہیں استعمال میں لایئے۔ آپ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ ( رض) سے پوچھا کہ تمہارے کوئی اعزا و اقرباء بھی ہوں گے جو اپنی جائز ضرورتیں رکھتے ہوں گے۔ بہتر ہے کہ تم یہ باغ ان میں تقسیم کردو۔ چناچہ آپ ( رض) نے اپنے چچازاد بھائیوں میں اسے تقسیم کردیا۔ یہ باغ بالکل باب مجیدی کے سامنے تھا۔ لیکن موجودہ توسیع میں مسجد کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طرح حضرت زید بن حارثہ ( رض) نے جب یہ آیت سنی تو ان کے پاس ایک بڑا قیمتی گھوڑا تھا۔ انھوں نے لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا اور عرض کیا کہ میں اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے وہ گھوڑا ان کے صاحب زادے حضرت اسامہ ( رض) کو عطا فرمایا۔ حضرت زید ( رض) کو یہ دیکھ کر ملال ہوا کہ گھوڑا تو دوبارہ میرے ہی گھر میں آگیا ہے۔ آپ ﷺ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت ایسے کئی واقعات پیش آئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کے مزاج پر خاطر خواہ اثر ڈالا اور وہ اپنی قیمتی چیزیں اللہ کے راستے میں نثار کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قیمتی چیز کا فیصلہ چیز کو دیکھ کر نہیں ہوتا بلکہ دینے والے کی حیثیت کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ بعض دفعہ لاکھوں روپیہ بھی ایک آدمی کے لیے کوئی بڑی دولت نہیں ہوتا۔ لیکن کسی دوسرے دوست کے لیے معمولی چیز بھی بڑی دولت کا درجہ رکھتی ہے۔ جنگ تبوک کے موقعہ پر جب مسلمان بڑھ چڑھ کر جنگی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے انفاق کا ثبوت دے رہے تھے۔ ایک شخص چھوہاروں کی ایک پوٹلی لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میرے پاس اس پوٹلی کے سوا کچھ نہیں اور یہ بھی میرے دن بھر کی مزدوری کی اجرت ہے۔ جو میں آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا کہ لوگوں کی داد و دہش سے جو خیرات کا ڈھیر لگ گیا ہے یہ پوٹلی اس ڈھیر پر بکھیر دی جائے تاکہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کا انفاق قبول فرما لے کیونکہ جو قدروقیمت اللہ کی نگاہ میں اس پوٹلی کی ہے وہ اس پورے ڈھیر کی نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کو قیمتی بنانے والا وہ جذبہ اور وہ خلوص ہے جو انفاق کا اصل محرک ثابت ہوتا ہے۔
Top