Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے تم کو سات (آیتیں) جو (نماز میں) دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں (یعنی سورة الحمد) اور عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ 87؀ ثنی الثُّنْوَى والثَّنَاء : ما يذكر في محامد الناس، فيثنی حالا فحالا ذكره، يقال : أثني عليه . وتَثَنَّى في مشیته نحو : تبختر، وسمیت سور القرآن مثاني في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر/ 87] لأنها تثنی علی مرور الأوقات وتکرّر فلا تدرس ولا تنقطع دروس سائر الأشياء التي تضمحل وتبطل علی مرور الأيام، وعلی ذلک قوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر/ 23] ، ويصح أنه قيل للقرآن : مثاني، لما يثنی ويتجدّد حالا فحالا من فوائده، كما روي في الخبر في صفته : «لا يعوجّ فيقوّم ولا يزيغ فيستعتب، ولا تنقضي عجائبه» «1» . ويصح أن يكون ذلک من الثناء، تنبيها علی أنه أبدا يظهر منه ما يدعو إلى الثناء عليه وعلی من يتلوه، ويعلمه ويعمل به، وعلی هذا الوجه وصفه بالکرم في قوله تعالی: إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وبالمجد في قوله : بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج/ 21] . ( ث ن ی ) مثاني تثنی ٰ ( تفعل ) فی مشیتہ تکبر سے لڑکھڑا کر چلنا ۔ اور آیت کریمہ :َ ۔ وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر/ 87] اوہم نے تم کو سات مثانی ( سورتیں ) عطاکیں ۔ میں قرآن کی سورتوں کو مثانی کہا ہے ۔ کیونکہ مرور ایام کے ساتھ باربار ان کا ذکر اور اعادہ ہوتا رہیگا ۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ نہ تو ان میں کسی قسم کا تغیر آئے گا اور نہ ہی دوسری اشیاء کی طرح یہ زوال پذیر ہیں ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر/ 23] خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دوہرائی جاتی ہیں ۔ اور قرآن کو مثانی کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ بار بار اعادہ سے اس کے عجائب وغرائب منقطع نہیں ہوتے اور ہر بار نئے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے وصف میں ایک روایت مروی ہے (53) لایعوج فیقوم ولا یزیغ فیستعتب ولا تنقضی عجائبہ ۔ کہ اس میں کچی نہیں آئے گی کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس میں زیغ پیدا ہوگا کہ اس کا ازالہ کرنا پڑے اور اس کے عجائب وغرائب کبھی منقطع نہیں ہوں گے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مثافی ثناء سے مشتق ہو تو اس اسے اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ قرآن پاک سے ہمیشہ ایسے مضامین ظاہر ہوتے رہیں گے جو اس کی ، اس کو پڑھنے والوں ، اس کا علم حاصل کرنے والوں ، اور اس پر عمل کرنے والوں ، کی تعریف کا موجب ہوں گے اور اسی معنی میں قرآن کو آیت :۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے :۔ میں کرم کے ساتھ متصف کیا ہے اور آیت :۔ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج/ 21] بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے ۔ اس کے وصف میں مجید کا لفظ ذکر کیا ہے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔
Top